پنجاب میں ٹی ٹی پی حقیقت یا افسانہ؟

اگرچہ پنجاب میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، لیکن یہ ٹی ٹی پی کے اپنے نیٹ ورک کو پھیلانے کے ارادے اور آپریشنل صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

12 دسمبر، 2022 کو سپن بولدک میں پاکستان افغانستان سرحد پر ایک طالبان سکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)
 

مختلف سوشل میڈیا چینلز پر حالیہ دنوں میں گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کو جنوبی پنجاب میں موٹر سائیکلوں پر گھومتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اگرچہ اس ویڈیو کو ٹی ٹی پی کا پنجاب میں موجودگی کے حوالے سے ایک ’پروپیگنڈا سٹنٹ‘ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اپریل اور مئی 2024 کے درمیان ٹی ٹی پی کے پنجاب کے مختلف علاقوں، خاص طور پر لاہور میں پولیس اور اس کی تنصیبات کو نشانہ بنانے والے حملوں میں چند پولیس اہلکار جان سے گئے اور زخمی ہوئے تھے۔

سوائے ایک حملے کے، ٹی ٹی پی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، لیکن 13 مئی کو لاہور میں پولیس نے ان حملوں کے مرکزی کردار فیضان بٹ کو لاہور میں ساتھیوں سمیت کیفر کردار تک پہنچا دیا تھا۔

2024 میں ٹی ٹی پی کے پرتشدد حملوں سے پہلے بالترتیب جنوری اور نومبر 2023 میں پنجاب کے ضلع خانیوال میں دو انٹر سروسز انٹیلی جنس اہلکاروں کا قتل اور ضلع میانوالی کی ایک ایئربیس پر حملہ کیا گیا۔

اگرچہ پنجاب میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، لیکن یہ ٹی ٹی پی کے اپنے نیٹ ورک کو پھیلانے کے ارادے اور آپریشنل صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

افغان طالبان کی تنظیم نو کے بعد سے ٹی ٹی پی نئے ضم شدہ اضلاع سے آگے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس ضمن میں ٹی ٹی پی بلوچستان میں کسی حد تک کامیاب رہی جبکہ پنجاب میں یہ کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔

ٹی ٹی پی کے پنجاب میں داخل ہونے سے نہ صرف اسے مزید تشہیر حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ شہری شورش میں بھی تبدیل ہو جائے گی۔

دسمبر 2007 میں ٹی ٹی پی کی تشکیل کے بعد پنجابی طالبان کے نام سے جانے والے عسکریت پسندوں کے ایک نیٹ ورک نے، جو پاکستان کے حمایت یافتہ کشمیری عسکریت پسند اور شیعہ مخالف گروپوں کے باغی دھڑوں پر مشتمل تھا، ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک مضبوط گٹھ جوڑ قائم کیا۔

پنجابی طالبان ٹی ٹی پی کے پنجاب میں حملوں کے لیے سہولت فراہم کرتے تھے۔ 2015 میں جب ٹی ٹی پی بکھر گئی تو بہت سی وجوہات کی بنا پر کچھ پنجابی طالبان کے دھڑے برصغیر القاعدہ میں شامل ہو گئے جبکہ دیگر پس منظر میں چلے گئے۔

حالیہ سالوں میں اپنے نئے تنظیمی ڈھانچے کے تحت ٹی ٹی پی نے پنجاب میں دو ولایتوں کا اعلان کیا ہے: شمالی پنجاب، جس کے سربراہ سید ہلال غازی ہیں اور جنوبی پنجاب جو عمر معاویہ کے ماتحت ہے۔

اطلاعات کے مطابق پنجاب میں ٹی ٹی پی کے پاس 250-300 عسکریت پسند موجود ہیں۔

جولائی 2020 سے اب تک 65 عسکریت پسند گروہوں میں سے صرف دو عسکریت پسند گروپ (ارشد بھٹی اور خالد بن ولید) پنجاب سے ٹی ٹی پی میں ضم ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں گروپوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، جہاں دیوبندی نظریات کا اثر رسوخ زیادہ ہے۔

ٹی ٹی پی کے جنوبی پنجاب کے دھڑے کا دعویٰ ہے کہ اس کے بینر تلے 10 ذیلی گروپ کام کر رہے ہیں۔ شمالی اور جنوبی پنجاب کے لیے ٹی ٹی پی کے دو عہدے داروں کی ماضی میں بھی عسکری وابستگی تھی۔

مثال کے طور پر سید ہلال لال غازی مسجد کے طالب علم تھے اور انہوں نے پاکستان فوج کے آپریشن کے بعد 2007 میں ٹی ٹی پی کے ایک اہم دھڑے جماعت الاحرار کے ساتھ مل کر کام کیا۔

مزید برآں، غازی کے لشکر جھنگوی کے اسلم فاروقی دھڑے کے ساتھ روابط مشہور ہیں۔

2009 اور 2012 کے درمیان غازی فورس نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی دہشت گردانہ حملوں کی قیادت کی۔

2015 میں پاکستان کی کامیاب انسداد دہشت گردی مہم کے بعد غازی فورس افغانستان منتقل ہو گئی اور اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد یہ شمالی وزیرستان میں دوبارہ نمودار ہوئی۔

اسی طرح لشکر جھنگوی سے وابستہ ایک سابق عسکریت پسند عمر معاویہ پنجاب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہل تشیع کے خلاف کئی حملوں میں ملوث رہا ہے۔

ٹی ٹی پی کی پنجاب میں ایک مضبوط موجودگی پیدا کرنے کی کوششوں کے تناظر میں جماعت الاحرار کے ساتھ گروپ کے حالیہ معاملات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

جماعت الاحرار 2023 میں اس کے سربراہ عمر خالد خراسانی کی موت کے بعد ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کر گئی تھی۔

جماعت الاحرار نے مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کو اگست 2022 میں اپنے رہنما کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں پولیس کے خلاف کچھ حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جسے ٹی ٹی پی نے مسترد کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جماعت الاحرار کے ٹی ٹی پی میں دوبارہ شامل ہونے کے بعد رہبری شوریٰ میں اس کی نمائندگی دو سے بڑھا کر تین کر دی گئی۔

مثال کے طور پر ڈاکٹر حق یار کو مفتی ابوہریرہ اور جماعت الاحرار کے سربراہ عمر مکرم خراسانی کے ساتھ رہبری شوریٰ کا نیا رکن مقرر کیا گیا۔

مزید برآں، ان کو جنوبی زون ملٹری کمیشن کا سربراہ بھی بنایا گیا۔ مجموعی طور پر جماعت الاحرار کے 20 ارکان کو ٹی ٹی پی میں اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

2015 میں ٹی ٹی پی سے الگ ہونے کے بعد جماعت الاحرار نے پنجاب میں کئی ہائی پروفائل حملے کیے تھے۔

اس گروپ کا پنجاب میں آپریشنل نیٹ ورک ہے اور اس کے پنجاب میں قائم غیر فعال عسکریت پسند دھڑوں، جیسے غازی فورس اور لشکر جھنگوی کے ساتھ تعلقات ہیں۔

لہٰذا ٹی ٹی پی پنجاب میں بڑھنے کے لیے دو جہتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف یہ لشکر جھنگوی کے نیٹ ورک اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو پنجاب میں استعمال کر رہی ہے۔

دوسری طرف ٹی ٹی پی کا سیاسی کمیشن بریلوی سخت گیر بنیاد پرست گروپ تحریک لبیک پاکستان کے حق میں بیانات جاری کرتا رہتا ہے۔

اسی طرح ٹی ٹی پی کا سیاسی کمیشن جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کو پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے اپنے صفوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

آٹھ فروری کے انتخابات میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کی خراب کارکردگی کے پیش نظر ٹی ٹی پی کو اپنے نظریاتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک راستہ ملا۔

بظاہر پنجاب میں ٹی ٹی پی کی موجودگی جنوبی حصوں میں زیادہ نمایاں ہے، جہاں دیوبندی نظریے کا زیادہ اثر رسوخ ہے اور شیعہ مخالف اور کشمیری عسکریت پسند گروپوں کی نمایاں موجودگی ہے۔

اس کے برعکس بریلوی اسلام کی وسیع پیمانے پر پیروی کی وجہ سے پنجاب کے شمالی علاقوں میں ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک واضح نہیں۔

نتائج سے قطع نظر ٹی ٹی پی دوسرے عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کا فائدہ اٹھانا جاری رکھے گی اور جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کی شکایات اور تحریک لبیک پاکستان کی حد تک اپنی وفاداریاں دکھانے کے لیے آگے بڑھے گی۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف سٹیڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ