امریکہ، عمران خان اور مقتدرہ کا امتحان

کیا ٹرمپ انتظامیہ واقعی عمران خان کی رہائی میں دلچسپی رکھتی ہے یا عمران خان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں تقسیم کے ایجنڈے سے اندرونی طور پر پاکستان کو کمزور چاہتی ہے؟

23 نومبر، 2024 کو فلوریڈا میں امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ کے باپر عمران خان کے حامی پلے کارڈز کے ہمراہ موجود ہیں (اے ایف پی)

سورج کی اُٹھان سے تمازت کا اندازہ لگا لینے والے ہی وقت پر سر ڈھانپ لیتے ہیں۔ سمندر میں اُٹھنے والا جوار بھاٹا وقت سے پہلے بند باندھنے کا سبب بنتا ہے جبکہ آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے زمین کی بے چینی کا اندازہ لگا لینے میں ہی پناہ ہے۔

2024 کا بیتا سال معاشی اور سیاسی حوالوں سے ملا جُلا رہا۔ معیشت کے سنبھلنے کی خبریں حوصلہ افزا رہیں تو سیاسی افراتفری نے بے چین کیے رکھا۔ 
 
امید اور ناامیدی کے درمیان ڈولتا یہ سال بھی بیت گیا۔ جاتے سال نے کُرم اور پاڑا چنار میں عام شہریوں کے قتل کا نوحہ پڑھا تو بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں گھمبیر رہا۔ 
 
متنازع انتخابات نے سیاسی بساط پر شاہ مسلط رکھا تو سڑک پر قیدی نمبر 804 کا غلبہ رہا۔ 
 
سیاسی شہ مات کے کھیل میں مہرے مخالف بادشاہ کے ہاتھ ہی رہے، پیادوں اور بادشاہ کے بیچ فیلے، گھوڑے اور وزیر کھیل میں جیت کی کوئی چال چلنے میں ناکام رہے۔
 
اب 2025 کی آمد ہے۔ جوتشی اگلے سال کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں کہ حالات کس نہج تک جائیں گے۔ 2023 سے غزہ پر برسنے والی آگ ٹھنڈی ہو گی یا نہیں؟ دُنیا کی واحد سُپر پاور امریکہ میں آنے والی تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا؟ 
 
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا کیا ہو گا؟ مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی، شام اور ایران کے حوالے سے کیا رنگ لائے گی  اور پھر یہ کہ امریکہ بہادر چین سے متعلق کیا پالیسی اختیار کرے گا؟
 
نئے سال میں ابھرتے سوالوں میں یہ جاننا اہم ہو گا کہ پاکستان امریکہ کے لیے بظاہر غیر اہم ہے کیونکہ افغانستان امریکہ کی ترجیح نہیں۔
 
مگر کیا ایران اور چین سے متعلق ممکنہ پالیسی کے لیے بھی یہ سات لاکھ چھیانوے ہزار کلومیٹر کا رقبہ غیر اہم ہو گا؟ نظر رکھنا ہو گی کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ ہمیں ہندوستان مخالف یا چین دوست کی صورت ’مینج‘ کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اپناتی ہے؟
 
ایسے میں پاکستان سے متعلق پالیسی کسی طور نہ تو غیر اہم ہو گی اور نہ ہی غیر ضروری۔ 
 
اُن سب دوستوں سے معذرت کے ساتھ جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے لیے پاکستان غیر اہم ہے۔ انہیں نئی انتظامیہ کے تیور اور اشاروں کی زبان سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ حالات کیا ہو سکتے ہیں۔ 
 
بائیڈن انتظامیہ ہو یا ٹرمپ کے نو چنتخب کابینہ کے ارکان سب ایک صفحے پر نظر آتے ہیں۔
 
رچرڈ گرینل کو سگنل دینے والا ’بھونپو‘ سمجھ لیں تو سُنیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ بظاہر عمران خان کی حمایت میں آواز اٹھانے والے رچرڈ گرینل کا اصل نشانہ آئی ایم ایف پروگرام اور میزائل پروگرام  تو نہیں جو طویل عرصے سے امریکہ کی دکھتی رگ ہے۔

 گرینل جس طرح پاکستان تحریک انصاف کی آنکھوں کا تارا اور امریکہ میں مقیم بعض پاکستانیوں کا راج دلارا ہے وہ ’دوست کا دشمن، دشمن‘ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ 

تحریک انصاف نے مذمت نہ کی تو ’غلامی نامنظور‘ اور ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کے نعرے پاکستان میں بیک فائر کر سکتے ہیں۔
 
ٹرمپ انتظامیہ کیا واقعی عمران خان کی رہائی میں دلچسپی رکھتی ہے یا عمران خان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں تقسیم کے ایجنڈے سے اندرونی طور پر پاکستان کو کمزور چاہتی ہے؟ 
 
عمران خان کی رہائی کے لیے بڑھتا دباؤ کسی صورت تحریک انصاف کے لیے سود مند نہ ہو گا۔ دوسری جانب مقتدرہ کے لیے بھی امتحان ہے۔ 
 
تحریک انصاف کو سمجھنا ہو گا کہ عمران خان کی حمایت ’پاکستان مخالفت‘ سے کیوں جوڑی جا رہی ہے، نیز یہ جو خان سے محبت ہے یہ دراصل کسی ’اور‘ سے نفرت تو نہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گرینل محض ’بھونپو‘ ہیں مگر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ کی نامزد کابینہ کے اہم اراکین سخت چین مخالف ہیں۔ 

نئے نامزد کردہ خارجہ سیکریٹری مارکو روبیو ناصرف چین اور پاکستان مخالف بلکہ انڈیا نواز بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ 
 
اسی برس یعنی جولائی 2024 میں روبیو نے مشہور زمانہ بل پیش کیا جو چین اور پاکستان کے خلاف انڈیا کو فوجی امداد دینے کی حمایت کرتاہے۔ 
 
یاد رہے اسی بل میں انڈیا میں دہشت گردی کی صورت میں پاکستان کی امداد روکنے کی حمایت بھی شامل ہے۔ 
 
2025 میں امریکہ - چین کشیدگی کس نہج ہو گی یہ تو معلوم نہیں البتہ اس رسہ کشی میں ہمارے پاس کیا کارڈز ہیں؟ 
 
ہم اپنے میزائل پروگرام اور معاشی معاہدے کے دفاع کے لیے کیا ’پتے‘ رکھتے ہیں؟ اس بارے میں ہم کیا چینلز استعمال کر سکتے ہیں۔
 
کیا آئندہ سال پاکستان کو کسی ایک ’بلاک‘ میں جانے پر مجبور کیا جائے گا؟ پالیسی سازوں کو اس بارے میں واضح لائحہ عمل بنانا ہو گا اور ایسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی جو موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت کے لیے اندرونی اور بیرونی بیانیے کی صورت سود مند ثابت ہو۔ 
 
کیا پاکستان ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کی پالیسی پر عمل درآمد کرے گا؟ دیکھتے ہیں وقت اور حالات کس کو کس طرف کھڑا کرتے ہیں
 
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ