یورپی کاریگروں نے تاریخی عمل کے دوران معاشرتی ضرورت کے تحت صنعتی اشیا تیار کیں، جنہوں نے یورپ کی تہذیب میں اضافہ کیا۔ موجودہ زمانے میں، جب صنعتی انقلاب آیا اور فیکٹریوں میں ضرورت کی اشیا کی پیداوار بڑھ گئی، تو کاریگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ ان کا فن اور ہنر وقت کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن گیا۔
تاریخ میں تبدیلی کا عنصر ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یورپی کاریگروں نے صنعتی اشیا کی پیداوار میں جو اہم کردار ادا کیا تھا، اب اس کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔ مورخین اس گمشدہ دور کی تاریخ کو تلاش کر کے پرانے دور کی تصویر کو واپس لا رہے ہیں۔ ان کی تاریخ نویسی کی بنیاد ان کاریگروں کی یادداشتوں اور ڈائریوں پر مبنی ہے، جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ ان کی صنعت کاری کی اشیا کے نمونے یورپ کے مختلف عجائب گھروں میں محفوظ ہیں، جن سے ان کے فن اور ہنر کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس موضوع پر جیفری کراسک (Geffrey Crossick) کی کتاب The Artisan and the European Town موجود ہے، جس میں مختلف ماہرین نے مضامین لکھے ہیں۔
کاریگروں کے کردار کو پندرہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے دورانیے تک بیان کیا گیا ہے۔ مصنف کے مطابق، کاریگروں کا طبقہ منظم اور اپنی روایات کا پابند تھا۔ اس طبقے کا سربراہ ماسٹر ہوا کرتا تھا، جس کے پاس شاگرد تربیت کے لیے موجود ہوتے تھے۔ شاگرد صبح سے شام تک ماسٹر کے ساتھ وقت گزارتے، اور اسی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد شاگرد ’جرنی مین‘ (Journeyman) کہلاتے تھے۔ یہ جرنی مین ماسٹر کی ورکشاپ چھوڑ کر یورپ کے شہروں میں سفر کرتے اور صنعتی اشیا کا اپنی اشیا سے موازنہ کرتے تھے۔
ہر جرنی مین کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ماسٹر بن کر اپنی ورکشاپ قائم کرے، لیکن ماسٹر بننے کے لیے سخت مقابلہ ہوتا تھا۔ اس لیے جرنی مین علیحدہ سے اپنی جماعت بنا لیتے اور اپنی صنعتی اشیا کو منڈی میں فروخت کرتے تھے۔
تجارتی لین دین میں یہ انتہائی ایماندار اور دیانت دار ہوتے تھے۔ ماسٹر ورکشاپ میں شاگردوں کی تربیت کرتا تھا اور تاجروں سے معاہدے کے بعد ان اشیا کو تیار کراتا تھا، جن کی مانگ بازار میں ہوتی تھی۔ اکثر تاجر اپنی پیداوار کی تیاری کے لیے انہیں خام مال فراہم کرتے تھے۔ یوں، ماسٹر اور تاجر ایک دوسرے کی مدد سے صنعتی پیداوار کے ذریعے روزی کماتے تھے۔
ورکشاپوں میں ماسٹر اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس لیے اس کی بیوی اور بالغ بچے کام میں اس کی مدد کرتے تھے۔ عورتیں اگرچہ پس منظر میں رہتی تھیں، لیکن صنعتی کاروبار سے پوری طرح واقف ہو جاتی تھیں۔ شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ ورکشاپ کو چلاتی تھی۔ اس کے علاوہ عورتیں کپڑے اور ریشم کی بنائی میں بھی کام کرتی تھیں۔
کاریگروں کی تمام ورکشاپس گِلڈ کے ماتحت ہوتی تھیں۔ گِلڈ کی تشکیل میں شہر کی بلدیہ کا اہم کردار ہوتا تھا۔ کوئی کاریگر گِلڈ کا ممبر ہوئے بغیر کاروبار نہیں کر سکتا تھا۔ گِلڈ اس بات کا خیال رکھتی تھی کہ کاریگروں کی تیار شدہ اشیا معیاری ہوں۔ ورکشاپ کے ماسٹر کا انتخاب بھی گِلڈ کے ماہرین کرتے تھے۔
کاریگروں کی یہ ورکشاپیں شہر کے کئی علاقوں میں ہوتی تھیں۔ ان میں وہ ورکشاپیں بھی شامل تھیں، جو امرا کے محلوں میں تھیں۔ ان میں اعلیٰ اور ماہر ترین کاریگر کام کرتے تھے۔ امرا ان سے اپنا فرنیچر، برتن، آئینے اور قیمتی ملبوسات تیار کراتے تھے۔ یہ محل کی سجاوٹ کے لیے بھی اشیا فراہم کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن جب جدید دور میں صنعتی انقلاب کی ابتدا ہوئی تو کاریگروں کی ورکشاپس کا مقابلہ سرمایہ داروں کی کارپوریشنز سے ہونے لگا۔ جب کارپوریشنز زیادہ پیداوار کرنے لگیں، تو کاریگروں نے احتجاجاً مظاہرے کیے اور مطالبہ کیا کہ کارپوریشنز اپنی پیداوار کم کریں تاکہ مارکیٹ میں ان کے لیے جگہ باقی رہے۔
لیکن جب فیکٹری سسٹم آیا تو صنعتی اشیا کی پیداوار بہت بڑھ گئی اور کاریگروں کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ یہ ضرور ہوا کہ امرا اور طبقہ اشرافیہ نے ماس پروڈکشن کی خریداری میں حصہ نہیں لیا۔ اپنے اور عام لوگوں میں فرق کو باقی رکھتے ہوئے، یہ ریڈی میڈ کپڑوں کی بجائے ماہر ترین درزیوں سے اپنے کپڑے تیار کرواتے تھے۔ اپنے جوتے بھی یہ خاص طور پر تیار کرواتے تھے۔ اس لیے، کاریگروں کی ورکشاپس تو ختم ہو گئیں، لیکن چند ماہر ترین کاریگر آج بھی یورپ کے مختلف شہروں میں اشرافیہ کے لیے کام کرتے ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صنعت و حرفت میں کبھی ٹھہراؤ نہیں رہتا۔ نئے نئے فیشن آتے رہتے ہیں اور ضرورت کے تحت صنعتی اشیا میں اعلیٰ، درمیانے، اور نچلے طبقوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فیکٹریاں زیادہ تعداد میں پیداوار کرتی ہیں۔
برصغیر ہندوستان میں نہ تو کاریگروں کی ورکشاپس تھیں، نہ ہی گِلڈ کا سسٹم۔ بلکہ ہر پیشے کا تعلق ذات سے تھا، جیسے جولاہے، موچی، ترکھان، اور کمہار وغیرہ۔ یہ پیشے نسل در نسل چلتے تھے۔ کیونکہ ان کا تعلق ذات سے تھا، اس لیے نہ تو ذات کو بدلا جا سکتا تھا اور نہ پیشے کو۔ ایک ہی خاندان میں پیشہ رہنے کی وجہ سے اس میں کوئی نئی ایجاد بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے برصغیر کا معاشرہ کاریگری میں پسماندہ ہو کر رہ گیا تھا۔
اس میں تبدیلی اس وقت آئی جب تیرہویں صدی میں یہاں ترکوں کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ اپنے ساتھ نئی ٹیکنالوجی لے کر آئے، جس نے صنعتی پیداوار کو نہ صرف بڑھایا بلکہ اس میں تبدیلیاں بھی کیں۔ اس کی ایک مثال ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ہے، جو عہد وسطیٰ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھی۔