1935 میں جب 30 اور 31 مئی کی درمیانی شب کوئٹے کو زلزلے نے آ لیا تو اس کی شدت اس وقت 7.7 تھی، ہم لوگ اور یہ آس پاس کی عمارتیں پانچ ساڑھے پانچ پہ ڈولنے لگتی ہیں، سوچیں کیا قیامت ہو گی؟
اب اسی رات کا واقعہ ہے کہ جب پہلا زوردار جھٹکا لگا تو ایک سرکاری ملازم اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے، انہوں نے فوراً اپنی نابینا والدہ اور دو بیٹیوں کو صحن میں بھیجا، پھر اپنی اہلیہ اور چار ماہ کے بیٹے کو باہر نکالنے کے لیے مڑے ہی تھے کہ اگلے جھٹکے سے مکان کی چھت گر گئی۔
زلزلہ تمام ہوا، گھر کا ملبہ دیکھا تو کسی زندگی کے آثار نہیں تھے، اچانک کسی جگہ سے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے، دو تین بچ جانے والوں کو ساتھ ملا کر ڈھونڈنا شروع کیا جاتا ہے، شہتیر، کڑیاں، سارا ملبہ کچھ دائیں بائیں ہوتا ہے سامنے ایک دلخراش منظر ہے۔
ماں گرتی چھت کے نیچے اپنے بچے پر ڈھال بنی موجود ہے لیکن بے جان، بچہ رو رہا ہے اور بالکل محفوظ ہے۔
اصل کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے کہ اس بچے نے ساری زندگی کس کام میں گزاری۔ 40 برس تک وہ بچہ انسانی آباد کاری، بحالی یا کہہ لیجے کہ راحت کاری کے شعبے سے وابستہ رہا اور بعد میں جب اولاد ہوتی ہے تو اسے بھی گھما پھرا کے وقت اسی شعبے کا اختصاص بخشتا ہے اور اس حد تک کہ آس پاس کے لوگ اس کا ذکر آنے پہ ’جہاں بحران وہاں عثمان‘ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔
ڈھاکا، بشکک، بیروت، دوشنبے، نیروبی، موغادیشو، جنیوا، دمشق، کابل سمیت کئی دوسری جگہوں پہ جس جس ترتیب سے بحران آئے، اسی حساب سے وہاں چند دن بعد عثمان قاضی بحیثیت راحت کار مدعو کیے گئے۔
انسان دنیا میں سب سے زیادہ جس چیز سے سیکھتا ہے وہ اس کا اپنا تجربہ ہے لیکن جب تک اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کیا سیکھا، تب تک سامان لپیٹنے کی باری آ چکی ہوتی ہے۔ تجربے کے علاوہ سفر اور کتاب، بزرگوں کے مطابق زندگی سیکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
وہ سفر کس کام کا اور وہ کتابیں کس دام کہ جب اس سے باقی دنیا کو فائدہ نہ ہو؟ لیکن یہ ہوتا ہے، بہت زیادہ پڑھنے والا عموماً لکھنے کے جھنجھٹ سے خود کو آزاد رکھتا ہے اور بہت زیادہ سفر کرنے والوں کو خدا نے انسٹاگرام اور یوٹیوب دیے ہوئے ہیں تو ان کا دف وہیں مر جاتا ہے۔
عثمان قاضی کے معاملے میں یوں ہوا کہ الحمدللہ نالے یوٹیوب کی راہ نہ پا سکے اور سوشل میڈیا کی یلغار میں وہ صرف بلاگنگ کی جدت تک پہنچ کر تھم گئے۔ یہ اس طرح اچھا ہوا کہ ایک انسان جو ہر ماہ دو تین درجن کتابیں پڑھتا ہو، ہر سال بے شمار سفر کرتا ہو، سات آٹھ زبانیں جانتا ہو، ہر براعظم گھوما ہو، وہاں داستانیں کم اور دوست زیادہ چھوڑے ہوں، اس کے نہ لکھنے سے بڑا ظلم کیا ہوتا؟
کتاب کا نام بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا، ’سفر و حضر‘ لیکن سفرنامہ کم ہے اور آپ بیتی زیادہ، تو بس شروع کر کے آپ بلا تکان آخر تک پہنچ جاتے ہیں۔
یہاں میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کو ایک ذاتی خواہش بتا دوں، یار میرا دل کرتا ہے کہ میں ضیا محی الدین نما کچھ ہوتا اور صبح شام اس کتاب کے اقتباس پڑھ کے اہل ذوق کو گرماتا رہتا، کوشش کرتا ہوں لیکن اب تک انصاف ہو نہیں پایا (ابھی کل لفظ منطق کے تلفظ پہ علما نے فیس بک پر کٹ لگائی ہے) دل ایسا چاہتا کیوں ہے؟ صرف اس لیے کہ کلاسیکی اردو لکھنے میں فی زمانہ جو درک عثمان قاضی کو حاصل ہے، یقین کیجے کہ لاکھ چاہ کر بھی کوئی ہم عصر اس کے پاسنگ نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال دیتا ہوں، دیکھیے؛
کتاب کے آخر میں دو خط موجود ہیں، مولانا غلام رسول مہر اور عاشق حسین بٹالوی کے، آپ اگر ان سے پہلے موجود نوٹ نہ پڑھیں اور روانی میں گزر جائیں تو یوں لگے گا جیسے گذشتہ سے پیوستہ کوئی بات چلی آ رہی ہے۔ یہ دعویٰ بہت بڑا ہے، میں جانتا ہوں، مگر یہ بھی جانتا ہوں کہ سالک، مہر، حسرت، ظفر اور تاثیر کے دور میں اردو کا رنگ کیا تھا، اور بحمدللہ یہ بھی علم ہے کہ انگریزی الفاظ کب اور کیسے دخیل ہونا شروع ہوئے، اس کا تو گواہ ہوں کہ خاندانی اردو نے کس وقت اپنے گھر کی راہ لی اور کولوکیل نے باقی زبانوں کی بیساکھیاں کب سنبھالیں، تو بس کافی سمجھیں، پڑھیں، پرکھیں، جانیں۔
لکھنے والے کو اگر آپ خود جانتے ہوں تو کتاب پڑھنے کا مزہ بہت زیادہ آتا ہے، مجھے بھی آیا، دس بارہ برس کی نیاز مندی ہے، چھ سال تو انہی کے لٹ خانے کی مجاوری پہ ہو گئے لیکن جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو قلم غوطے کھانے لگتا ہے، کیا لکھوں، کیا نہ لکھوں، کس واقعے کا پس منظر کیا تھا، کس شخصیت کی دیگر کہانیاں کیا تھیں، اتنا کچھ ہے کہ اس کتاب کی شرح میں دو تین کتابیں میں خود نکال سکتا ہوں لیکن پھر تھمنا پڑتا ہے کہ ظالم کی بات بات میں ہے ایک اور بات! (غالب والوں سے معذرت)
خط آدھی ملاقات ہوتی ہے، عثمان قاضی کی اس کتاب میں اکثر تحریریں مکتوب نگاری کی صنف میں آئیں گی لیکن انہیں آپ کھلا خط تو کہہ سکتے ہیں مضمون ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ تحریر کا سارا لطف، کیف، سرور وغیرہ کشید کر کے، گنڈیری کے بقایا جات کی طرح، جو بچ جائے وہ تو کہلا سکتا ہے کہ بھئی یہ مضمون ہے، انشائیہ ہے، یا جیسے ارشاد احمد حقانی لکھتے تھے، ویسا کچھ ہے، یہاں، یہ تو کہانیاں ہیں، قصے ہیں، داستانیں ہیں، شعر و شاعری ہے، زبان کی باریکیاں ہیں، دور دیشوں کی جگ بیتیاں ہیں، بلوچستان کے المیے ہیں، شیریں مقالوں کے واقعے ہیں، باقاعدہ حکائیتں ہیں، انہیں آپ مضمون کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کتاب کے بیک فلیپ پہ ایک جگہ ’مضامین‘ لکھا دیکھا تو رگ دب گئی ورنہ خیر ہے، بس درخواست ہے عثمان بھائی سے کہ اس لفظ کو دور رکھیں خود سے ۔۔۔ داستان گو، قصہ گو بہت زیادہ کسر نفسی کرے تو ’کتھا واچک‘ بن جائے لیکن یار مضمون ایسا ثقیل لفظ ۔۔۔ مہ کوا!
کتاب کا انتساب میرے اور وجاہت بھائی کے نام ہے۔ میں قسم سے زمین میں گڑا ہوا ہوں، خدا جانتا ہے یا عثمان قاضی، کہ وہ کون سا وقت تھا جب فقیر نے انہیں ’لکھنے کی راہ دکھائی‘، اپنے تو یار پالنے میں پاؤں تھے، ہم سب ویب سائٹ کی بنیاد پڑ رہی تھی، شاید کسی وقت درخواست کی ہو بھائی سے اور انہوں نے ازراہ خردنوازی کچھ بھیج دیا ہو لیکن یار، ایسے انتساب میں ڈال دینا، پیش لفظ میں لکھ دینا ۔۔۔ اس بڑے پن پہ مجھ جیسا کم علم آدمی واللہ کہ پھنسا ہوا ہے۔ جو کتاب دیکھے گا وہ کہے گا کہ کہاں حسنین اور اس کی اردو، کہاں یہ عالمانہ معیار، جو اس تحریر کو پڑھے گا وہ سمجھے گا کہ سالا اپنی شو مار رہا ہے، میں کہاں جاؤں بھائی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کتاب کی اشاعت کے بعد عثمان بھائی سے کئی ملاقاتیں ہو گئیں لیکن میں ٹھیک سے شکریہ تک نہیں ادا کر پایا، کیسے کہوں، کیا کہوں؟ دوستوں کی مہربانیوں کا حساب تو دل میں ہونے کا محاورہ ہے، بھائی لوگ شاید آنکھیں دیکھ کے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں، عثمان بھائی نے بھی دیکھ لی ہوں گی۔ خردنوازی سے بڑا کیا لفظ لاؤں اور شکریہ بھی تب کہوں کہ جب خود کو ذرہ برابر اس مہربانی کا اہل بھی پاؤں ۔۔۔ تو بس یوں ہے!
اب یہاں آپ کہیں گے کہ عثمان قاضی سے ایک دم عثمان بھائی کیوں ہو گئے اس تحریر میں، تو بھئی جب تک میں قاری تھا وہ قاضی تھے، جب حسنین ہوا تو وہ بھائی ہو گئے ۔۔۔ یہ تھوڑا ٹیکنیکل ہے لیکن عرض کرنا ضروری تھا کہ مذکور الیہ کے باب میں شتر گربگی نہ کہلائے۔
باقی، در زبان کوئٹہ کے عنوان سے دو تحریریں اس کتاب میں ہیں، وہ سمجھ لیجے دل ہیں کتاب کا، سادہ سی غریبامئو زبان ہے، اور وہی سادگی جان لے لیتی ہے۔ بلوچستان کے بارے میں خود وہاں کے رہنے والے کیا سوچتے ہیں، پچاس برس کے نوشتے پڑھ لیں یا بس وہ دو خط۔
مولانا غلام رسول مہر اور عاشق حسین بٹالوی کے خطوط کا ذکر اوپر تھا، ان کی اہمیت یہ ہے کہ پاکستان بننے کے دوران جو کچھ جس ترتیب سے ہوا اس میں کئی ایسے سوالات تھے جن کے باب میں مجھ جیسے نہ سوچنے والے تو غص بصر سے کام لے سکتے ہیں لیکن موجودہ نسل کے نوجوان، ان کے لیے بلاشبہ انہیں شامل نصاب ہونا چاہیے، تو یہ بڑا نیک کام ہو گیا، کتابی شکل میں عثمان قاضی کی اس کاوش سے وہ محفوظ ہو گئے۔
آخری اہم بات یہ کہ اردو ادب کو پولیٹیکلی ان کریکٹ ہونا بہت حد تک غرق چکا ہے۔ ہماری شاعری، ہماری نثر بلکہ انشائیوں تک میں ایسے بہت سے لفظ موجود ہیں جو نئی دنیا کے نارمز سے لگا نہیں کھاتے۔ کئی ایسی اصطلاحات و روایات موجود ہیں جنہیں دریا برد ہو جانا چاہیے تھا لیکن قائم دائم ہیں بلکہ پھل پھول رہی ہیں، صرف ایک لفظ لے لیجے ’بیگم / زوجہ / اہلیہ‘ ۔۔۔ عثمان قاضی نے ان کے لیے ’ہم سر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، کیسا برابر لفظ ہے؟ ایسی کئی باریک چیزیں ہیں جن کو اس کتاب میں پڑھنا اردو دان طبقے کے لیے نہ صرف اہم ہے بلکہ بعض جگہ سہولت کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ باریکیاں معمولی بات نہیں ہیں، ہمارے یہاں انسانی اور صنفی تحقیر اتنی زیادہ ہے کہ عام اردو والا بغیر سوچے بولے جاتا ہے، لکھے جاتا ہے۔ تو بس کتاب اٹھائیے، پڑھیے، دیکھیے، سوچیے، پھر بات کرتے ہیں۔
(شوق میں رہا نہیں گیا، ایک اقتباس پڑھتا ہوں، ویڈیو دیکھ لیجے اگر موڈ ہو۔)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔