پچھلی بار جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی کارروائی ٹیلی ویژن پر دکھانے کے لیے کہا تھا تو انہوں نے بینچ کی دوسری جانب سے ایسا کیا تھا کیوں کہ وہ اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار تھے۔
دس رکنی بینچ نے اصولی طور پر کارروائی ٹیلی ویژن پر دکھانے سے اتفاق کیا لیکن ان کی درخواست مسترد کر دی۔
اس کے بعد طویل قانونی لڑائی کا آغاز ہوا اور آخر میں حلف برداری کی تقریب ہوئی۔ اس بار شاذونادر ہی تشکیل دی جانے والی فل کورٹ میں ججوں کی اکثریت نے عدالتی کارروائی ٹیلی ویژن پر دکھانے کے معاملے میں پاکستان کے نئے چیف جسٹس سے اتفاق کیا۔
فل کورٹ میں شامل تمام 15 ججوں نے کورٹ روم نمبر ایک میں بیٹھ کر پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے نئے قانون یعنی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ کرنا ہے۔
کچھ لوگوں کی نظر میں عدالت اس مقدمے کی پہلی بار سماعت نہیں کر رہی۔ گذشتہ راؤنڈ میں سابق چیف جسٹس نے اپنے سمیت اس کیس کی سماعت کے لیے آٹھ ججوں کا انتخاب کیا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں بینچ تشکیل دے کر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کسی بھی قانون ساز کے مقابلے میں قانون کے لیے بہتر کیس بنایا۔
آخر کار اس قانون (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ) نے ٹھیک ایسے ہی اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔
حال ہی میں عدالت کے فیصلوں کو نظر انداز کرنے کی عادت اپناتے ہوئے حکومت نے بنچ کو ’مسترد‘ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بینچ نے کسی رعب میں آئے بغیر اس قانون کو باضابطہ طور پر قانون بننے سے پہلے ہی معطل کر دیا تھا۔ یہ تاریخی اعتبار سے ایک ایسا عمل تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔
اس مقدمے کی سماعت ٹیلی ویژن پر دکھائی جاتی تو اس دلچسپی لے کر دیکھا جاتا لیکن اس وقت کمرہ عدالت کیمرے نہیں لگے ہوئے تھے۔ تاہم اس بار اس انقلاب کو ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔
صرف آٹھ دفعات پر مشتمل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ دو صفحات میں آرام سے سما جاتا ہے۔ جہاں تک اس قانون میں موجود نکات کا تعلق ہے تین نکات نے الجھن پیدا کر دی ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ صرف چیف جسٹس نے فیصلہ کرنا ہے کون سا جج کسی خاص کیس کی سماعت کرے گا یا نہیں کرے گا۔ اس سے فطری طور پر حتمی فیصلہ متاثر ہو سکتا ہے۔ نیا قانون چیف جسٹس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس اختیار کو دو سینیئر ترین ججوں کے ساتھ مل کر استعمال کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس قانون میں سپریم کورٹ کے ’اصل دائرہ اختیار‘ کے استعمال کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ زیادہ تر مقدمات اپیل کی شکل سپریم کورٹ تک آتے ہیں لیکن مخصوص حالات میں عدالت بھی آغاز سے ہی کیس لے سکتی ہے۔ تاہم ان مقدمات میں اپیل کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ نئے قانون میں یہ حق دیا گیا ہے۔
بینچوں کی تشکیل سمیت چیف جسٹس اکیلے فیصلہ کرتے ہیں کہ عدالت اپنے طور پر کسی مقدمے کو کب لے گی۔ نیا قانون اس اختیار میں بھی تبدیلی لایا ہے۔ یعنی چیف کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ دو سینیئر ترین ججوں کے ساتھ مل کر اس اختیار کو استعمال کریں۔
زیادہ تر لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اصولی طور پر یہ سب اچھی باتیں ہیں۔ درخواست گزاروں نے عدالت کے روبرو اتنا ہی قبول کیا اور کسی بھی جج نے اس کے برعکس اشارہ نہیں کیا۔ اگرچہ یہ بات نہیں کہی گئی لیکن یہ واضح ہے کہ نئے قانون کا محرک صرف یہی نہیں کہ ایک جج نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس کے ’ون مین شو‘ کی بات کی۔
بہت سے لوگوں کے خیال میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایک ایسا قانون ہے جو ایک خاص جج کے ’ون مین شو‘ کو محدود کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
مسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے ایک ہفتے بعد حکومتی پریس کانفرنس میں ’متنازع‘ جسٹس بندیال کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔ تین دن بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ قانون منظور کر لیا گیا۔
عدالت کے باہر، یہ واضح تھا کہ بات قانون سے کہیں بڑھ کر تھی۔ قانون سازوں کی جانب سے بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی پارٹی کے سربراہ عمران خان کے حق میں نعرے بازی کی۔
ان کے نزدیک اس قانون کا مقصد سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی طرف سے ملکی تاریخ کو متاثر کرنے کی آخری کوشش بے اثر بنانا ہے جس کا شاید عمران خان کو فائدہ ہوتا۔
لیکن اس کے بعد چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے۔ ان کی جگہ لینے والے چیف جسٹس کو 2021 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے متعلق کسی بھی کیس کی سماعت سے روک دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس کی تبدیلی کے بعد اب سپریم کورٹ میں دائر شدہ درخواستوں میں بنیادی طور پر ’غلط‘ چیف جسٹس کے اختیارات کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ نئے چیف جسٹس ان اختیارات کو ختم کرنے کی جانب بہت زیادہ مائل ہیں جس کی وجہ سے صورت مزید عجیب وغریب ہو جائے گی۔
سیاست چاہے جیسی بھی ہو عدالت میں ججوں کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ جہاں تک فیصلوں کا تعلق ہے، ججوں کو صرف اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ کیا پارلیمنٹ ایسا قانون منظور کر سکتی ہے یا نہیں جس سے یہ سب ہو رہا ہے؟
کیا یہ خود سپریم کورٹ نہیں ہے جسے اس طرح کے معاملات کو باضابطہ کرنا ہے؟ جیسا کہ اس نے 1980 میں اپنے لیے قواعد بناتے وقت کیا تھا۔ کیا آئینی ترمیم کے بغیر اپیل کا ایسا حق دیا جا سکتا ہے؟ اور اس سب سے پہلے کیا سپریم کورٹ اس طرح کے معاملے کی سماعت بھی کر سکتی ہے؟
عدالتی کارروائی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے کے ساتھ بہت سے لوگوں نے اس معیار کا حوالہ دیا ہے کہ ’انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتے دیکھا بھی جانا چاہیے۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن کم دیا جانا والا ایک حوالہ کچھ اس طرح ہے کہ ’انصاف کا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ کمرہ عدالت میں کیا ہو رہا ہے۔ انصاف وہی ہے جو کمرہ عدالت سے باہر آتا ہے۔‘
ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ کورٹ روم نمبر ایک سے کیا نکلتا ہے۔ لیکن خواہ کچھ بھی ہو ایک بات واضح ہے کہ آج کی سیاست فیصلے پر اثرانداز ہو یا نہ ہو لیکن یہ ایک ایسا فیصلہ ہو گا جو کل کی سیاست پر اثر انداز ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
(بشکریہ عرب نیوز)