روس نے تقریباً 20 سال کے بعد افغان طالبان کو ’دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست سے نکال دیا جو مبصرین کے مطابق عالمی سیاست کے لیے بےحد اہمیت کا حامل ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق گذشتہ روز روس کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ روس تمام شعبوں میں کابل کے ساتھ باہمی مفاد کے لیے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے نام نہاد داعش کی مقامی شاخوں کے خلاف کارروائی خوش آئند ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ دنیا میں مختلف ممالک کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا، ان کے سفارت خانے کھولنا اور مختلف تجارتی معاہدے کرنا خطے کی سیاست کے لیے بہت معنی خیز ہے۔
اس سے پہلے انڈیا کے خارجہ سیکریٹری نے رواں سال جنوری میں افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے دبئی میں ملاقات کی تھی اور تعلقات بہتر بنانے پر زور دیا تھا۔
کچھ ہفتے پہلے امریکہ نے افغان طالبان کے موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی (امریکہ کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے سربراہ) کو ’دہشت گردوں کی فہرست‘ سے نکال دیا ہے۔
امریکہ نے سراج الدین حقانی کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی لیکن اب سراج الدین حقانی سمیت حقانی نیٹ ورک کے بعض دیگر اراکین کو اس فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔
لیکن افغانستان سے تعلقات قائم کرنے والے ملکوں میں چین سب سے بازی لے گیا ہے۔ اس نے ابتدا ہی سے افغان طالبان سے بہتر تعلقات قائم کیے ہیں جبکہ افغانستان میں تجارتی معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔
چین کی جانب سے بہت پہلے کابل میں اپنا سفیر بھی تعینات کیا گیا ہے جبکہ مختلف تجارتی معاہدوں کے حوالے سے بات چیت بھی جاری ہے۔
’اس خطے میں سرد جنگیں گرم جنگیں بن جاتی ہیں‘
سید عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر اور اس خطے میں شدت پسندی پر مختلف تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔ ان کے مطابق روس کا افغان طالبان کا نام پابندیوں کی فہرست سے نکالنا بظاہر امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس خطے کا ہمیشہ سے رجحان یہی رہا ہے کہ دنیا میں جاری سرد جنگیں یہاں آ کر ہاٹ وار یا اصل جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
عرفان اشرف کے مطابق یہ ہم نے ’افغان جہاد‘ میں بھی دیکھا کہ سرد جنگ باقاعدہ فوجی جنگ میں تبدیل ہو گئی اور ابھی نظر آ رہا ہے کہ دنیا میں شروع ہونے والی تجارتی جنگ ہمارے خطے میں باقاعدہ جنگ میں تبدیلی کا امکان ظاہر کر رہی ہے۔‘
عرفان اشرف نے بتایا، ’اگر پاکستان عالمی طاقتوں جیسے امریکہ، روس یا چین کے مابین آئے گا تو یہاں جنگ سی صورت حال دوبارہ بن سکتی ہے۔‘
عالمی طاقتوں کی مفادات کی جنگ کے حوالے سے عرفان اشرف نے بتایا کہ امریکہ کا چین پر ٹیرف بڑھانا تجارتی جنگ کی علامت ہے۔
دوسری جانب عرفان اشرف کا خیال ہے کہ امریکہ روس کو یوکرین کے معاملے پر چین سے جدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ چین کی کوشش ہے کہ اپنے ارد گرد ممالک سے تعلقات بہتر بنا کر وہاں اپنی عسکری موجودگی بڑھا سکے۔
عرفان اشرف نے بتایا، ’امریکہ کی پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات میں کوششیں اور اس خطے میں مزید دلچسپی تجارتی جنگ کی طرف اشارہ ہے جو چین کے خلاف ہو سکتی ہے اور امریکہ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ ان کے تجارتی وفود بھی جنگی وفود کی طرح ہوتے ہیں۔‘
عرفان اشرف کے مطابق اب امریکہ کا افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور مختلف ملاقاتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف ہو رہا ہے، یہ عالمی طاقتوں یعنی چین، امریکہ اور روس کی ایک تجارتی جنگ ہے۔
عرفان اشرف سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا اس سارے معاملے میں کیا کردار ہو سکتا ہے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکہ اور چین کے مابین توازن رکھنا پڑے گا ورنہ چین اور امریکہ اس تجارتی جنگ کے لیے پاکستان اور افغانستان کی زمین استعمال کر رہے ہیں۔
عرفان اشرف نے بتایا، ’اس میں بڑا کردار افغان طالبان ادا کریں گے اور اسی تجارتی جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے اور افغانستان کو سٹریٹیجک پوائنٹ بنانے کی کوشش کریں گے۔‘
تاہم عرفان اشرف کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ پہلی مرتبہ افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کر کے اس پالیسی کو آگے بڑھا رہا ہے لیکن یہ مستقبل میں واضح ہو گا کہ امریکہ اس پالیسی میں کیسے کامیاب ہو سکیں گے اور اس کا پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات پر کیا اثر ڈالے گا۔
عبدالسید سویڈن میں مقیم محقق ہیں اور پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کے معاملات پر تحقیق کرتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کا نام روس کے شدت پسند تنظیموں کی فہرست سے نکالنا افغان طالبان کی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ خطے کی ایک بڑی طاقت، روس، طالبان کی یقین دہانیوں پر اعتماد کا اظہار کر رہا ہے اور خاص طور پر افغانستان سے داعش سمیت ہر قسم کے خطرات کے خاتمے کے لیے کیے گئے اقدامات پر خوش ہے۔
عبدالسید نے بتایا، ’یہ اقدام ماسکو کی جانب سے طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔‘
گذشتہ سال ماسکو کے کنسرٹ میں حملے کی ذمہ داری افغانستان میں موجود داعش خراسان برانچ نے قبول کی تھی جس میں کم از کم 60 افراد مارے گئے تھے۔
امریکہ کے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نامی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق داعش خراسان کے ریڈار پر روس اسی وجہ سے پہلے سے موجود ہے کہ روس شام میں بشار الاسد کی حکومت کو سپورٹ کر رہا تھا۔
یاد رہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کی جانب سے نام نہاد داعش خراسان کے جنگجوؤں کے خلاف باقاعدہ طور پر مختلف اوقات میں کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
روس میں افغانستان میں موجود داعش خراسان کی جانب سے حملے کے باوجود، افغان طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے، اس سوال کے جواب میں عبدالسید کا کہنا تھا کہ یہ اقدام مارچ 2024 میں ماسکو میں داعش کی جانب سے کیے گئے دہشت گرد حملے کے تناظر میں خاص طور پر قابل توجہ ہے۔
تاہم، عبدالسید سمجھتے ہیں کہ روس کا یہ قدم طالبان کی جانب سے داعش خراسان کے خلاف کی گئی کارروائیوں کی توثیق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’دیگر عالمی و علاقائی طاقتوں کی طرح، روس کا بھی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے دو اہم تقاضے ہیں جس میں ایک، افغانستان سے داعش سمیت کسی بھی سکیورٹی خطرے کی روک تھام اور دوسرا خطے میں سٹریٹیجک مقاصد کے لیے افغانستان کی اہمیت کا ادراک شامل ہے۔‘