جس وقت جموں و کشمیر کی اسمبلی میں وقف ترامیم کے بل کے خلاف قرارداد پیش کرنے پر حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان ہنگامہ بپا تھا، عین اسی وقت وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی مرکزی وزیر کرن رجو کے ساتھ وادی کے خوبصورت ترین ٹیولپ گارڈن میں رنگ برنگے گلالوں سے لطف اندوز ہونے کی تصویریں میڈیا میں دکھائی جا رہی تھیں۔
کرن رجو وہی ہیں جنہوں نے حال ہی میں انڈین پارلیمنٹ میں وقف بورڈ کی ترامیم پیش کیں، منظور کروائیں اور کہا کہ یہ ترامیمی بل مسلمانوں کی بہبود کے لیے ہے، مگر اس پر انڈیا کے 25 کروڑ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف ماتم کناں ہے بلکہ کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کر رہی ہے۔
اس ترامیمی بل پر انڈیا کی مختلف ریاستی اسمبلیوں میں بحث و تمحیص ہوئی، مذمتی بیانات جاری ہوئے، سڑکوں پر احتجاج ہوا اور بیشتر علاقوں میں پولیس کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت حال بھی ابھری۔ تمل ناڈو اور مغربی بنگال نے بل کو غیر آئینی قرار دے کر اسے لاگو نہ کرنے کا اعلان کیا۔
مگر کشمیر میں یہ سب کرنے کی اجازت نہیں، اگر خدانخواستہ کسی نے کبھی کبھار آواز اٹھانے کی کوشش کی تو اس کو ڈرایا جاتا ہے یا جیل میں بند کر کے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، جہاں عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، وہاں کوئی بات کرے تو کیا؟
بے آسرا اور بے اختیار چوتھائی ارب مسلمانوں کو شاید گمان تھا کہ مسلم اکثریت والے خطے جموں و کشمیر کی اسمبلی میں وقف بل پر ضرور بات ہو گی، کچھ نہیں تو کم از کم ایک عدد قرارداد ہی منظور ہو گی، مگر نیشنل کانفرنس کے سپیکر نے نہ اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی کو بات کرنے کی اجازت دی اور نہ حزب اختلاف سے وابستہ اراکین کو۔ اس کے برعکس وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور کرن رجو کی کشمیر کے باغات کی سیر کی تصویریں سوشل میڈیا پر اس طرح وائرل ہو گئیں کہ بہت سے کشمیریوں کے جذبات مجروح ہو گئے۔
کئی روز سے اسمبلی میں شدید ہنگامہ برپا رہا، ایک جانب بی جے پی کے اراکین اسمبلی کے جئے شری رام کے نعرے سنائی دے رہے تھے تو دوسری جانب مسلم اراکین کے اللہ اکبر کی گونج ہو رہی تھی، زدوکوب، ماردھاڑ اور گالی گلوچ تک حالات پہنچ گئے، البتہ سب نے محسوس کیا کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت جیسے بی جے پی کے کہنے پر وقف پر بات کرنے سے سب کو روک رہی ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس کے اندرونی حلقوں میں قیادت کی مسلسل خاموشی اور اسمبلی کے طریقہ کار پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، جو اس وقت مزید واضح ہو گئے جب اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کے چند اراکین حزب اختلاف سے مل کر اپنے ہی سپیکر کے خلاف متحد ہو گئے۔ بعد میں عوام کا تاثر بدلنے کے لیے اعلیٰ قیادت کی میٹنگ بھی بلائی گئی۔ بعض خبروں میں بتایا گیا کہ قیادت نے اپنے اراکین کی شدید تنبیہ کی ہے۔
بیشتر تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس نے واضح اکثریت حاصل کرنے کے فوراً بعد اپنا طرز عمل بدل دیا جس عمر عبداللہ نے انتخابی مہم کے دوران گڑگڑا کر اور ووٹروں کے سامنے ٹوپی اتار کر بی جے پی کے خلاف ووٹوں کی بھیک مانگی تھی، وہی عمر عبداللہ نہ آرٹیکل 370 پر بات کر رہے ہیں اور نہ وقف ترامیمی بل پر کسی کو بات کرنے دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس سب پر خاموشی اختیار کرنے کو کہہ رہے ہیں جو بی جے پی کو پسند نہیں۔
عمر عبداللہ کے والد فاروق عبداللہ نے ایک گفتگو میں کہا کہ جو لوگ مرکز کے ساتھ ٹکراؤ چاہتے ہیں وہ ٹکراؤ کریں لیکن ہم کبھی ایسا نہیں کریں گے، جبکہ انتخابی مہم کے دوران مرکز کی کشمیر مخالف پالیسیوں پر بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔
عوامی حلقوں میں شدید غصہ ہے کہ جموں و کشمیر کی ایسی دردناک صورت حال آج نہیں ہوتی اگر نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ نے سنہ 47 میں الحاق انڈیا کی ہامی نہ بھری ہوتی، اور جو اب بھی سب کچھ چھن جانے کے بعد مرکزی سرکار کی جی حضوری میں لگی ہوئی ہے۔
نیشنل کانفرنس نے کبھی صدق دل سے کشمیری عوام کی بہبود نہیں چاہی بلکہ کرسی کی خاطر عوام کے جذبات اور احساسات کا سودا کرتی رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوام کے شدید ردعمل پر پہلے کرن رجو اور پھر عمر عبداللہ نے صفائی پیش کی کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ٹیولپ گارڈن گئے تھے جہاں کرن رجو پہلے ہی موجود تھے، مگر عوامی حلقوں نے سوال اٹھایا کہ وہ اسمبلی میں وقف بل پر بات کیوں نہیں کرنے دیتے؟ یا وہ بی جے پی سے اتنا ڈرتے ہیں کہ اپنے اراکین کو بات کرنے سے روکتے ہیں؟ اندرونی خودمختاری کی بحالی پر کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتے، ریزرویشن پالیسی کو توڑ مروڑ کر کیوں پیش کرتے ہیں، ہزاروں قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیوں بھلا دیا؟
نیشنل کانفرنس کے ایک رکن نے کہا، ’جس وزیر نے مسلمانوں کی زمین، مذہبی املاک اور حقوق چھیننے کی بل پیش کر کے 25 کروڑ عوام پر کاری ضرب لگائی، اسی وزیر کے ساتھ باغات میں گلالوں سے محظوظ ہو رہے تھے، عمر عبداللہ کن کے جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے، اپنی پارٹی کی، یا اپنے ووٹروں کی، یا بی جے پی کی؟
’کم از کم تصویریں دکھا کر ہمارے زخموں پر نمک نہیں چھڑکتے، اسی دن ایسی تصویریں میڈیا میں کیوں آئیں جب ہم اسمبلی میں بی جے پی کی مسلم کش پالسیوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے۔‘
وقف ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی عرضداشتیں داخل کر دی گئی ہیں۔ نیشنل کانفرنس نے بھی پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا، تاہم عدالت سے کسی انصاف کی توقع نہیں ہے۔
عمر عبداللہ یا ان کی پارٹی کتنی بھی صفائی پیش کرے، مگر حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کی بات پر اب مشکل ہی سے کوئی اعتماد کرتا ہے۔ اس پارٹی کی ماضی کی انڈیا نواز پالیسیاں اتنی غالب آتی ہیں کہ اچھا کام بھی تنقید کی نذر ہو جاتا ہے۔ نیشنل کانفرنس مرکز نوازی میں ماہر ہے، مگر انڈین قیادت سات دہائیوں کے بعد بھی اس پر بھروسہ نہیں کرتی، بس کشمیریوں کو چپ کرانے کا کام لیتی رہی ہے۔