پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے ماورائے عدالت اور بیرون ممالک قتل کا معاملہ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کے جواب میں مربوط بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعے کو عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے سیکرٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی نے جنوری میں دو پاکستانی شہریوں کے پاکستان میں قتل کے انڈیا کے ساتھ تعلق کے شواہد مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ شیئر کیے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان واقعات نے پاکستان کے اندر انڈیا کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی اور بے شرمی کو بے نقاب کیا ہے، جو کینیڈا اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں ایسے واقعات سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔‘
ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ ’نئی دہلی کے اس طرح کے اقدامات واضح طور پر پاکستان کی خودمختاری اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’ان ماورائے عدالت اور ماورائے سرحد قتل کے مجرموں، سہولت کاروں، مالی اعانت کاروں اور حمایتیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی پر انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر جواب دہ ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعرات کو برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ انڈین حکومت نے غیر ملکی سرزمین پر رہنے والے افراد کے خاتمے کی وسیع تر حکمت عملی کے تحت پاکستان میں بھی لوگوں کو قتل کیا ہے۔
دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی اور انڈین خفیہ ایجنٹوں سے ہونے والی گفتگو اور پاکستانی تفتیش کاروں کی فراہم کردہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انڈیا کی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (را) نے 2019 کے بعد سے قومی سلامتی کے نام پر مبینہ طور پر بیرون ملک لوگوں کو قتل کرنا شروع کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2020 سے اب تک پاکستان میں نامعلوم مسلح افراد نے تقریباً 20 لوگوں کو قتل کیا۔ رپورٹ میں پاکستانی تفتیش کاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’ان اموات کی منصوبہ بندی انڈین انٹیلی جنس سلیپر سیلز نے کی‘ جو کسی دوسرے ملک سے کام کر رہے تھے۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر پاکستانی شہریوں کا قتل ملک کی خودمختاری اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان واقعات نے پاکستان کے اندر انڈیا کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی اور ڈھٹائی کو بےنقاب کیا ہے، جو کینیڈا اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کے طرز عمل سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔
انڈیا نے رپورٹ میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کی ہے۔
پاکستانیوں کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ’مستند شواہد‘
پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے رواں برس 25 جنوری کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انڈیا کے دو پاکستانی شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاس پاکستانی سرزمین پر قتل کے دو واقعات میں انڈین ایجنٹس کے ملوث ہونے کے ’مستند شواہد‘ موجود ہیں۔
سائرس سجاد قاضی کا کہنا تھا کہ قتل کیے جانے والے دونوں شخص پاکستانی شہری تھے اور انہیں ایک اجرتی قتل کے نظام کے تحت قتل کیا گیا۔
سائرس قاضی کا کہنا تھا کہ دونوں واقعات کینیڈا اور امریکہ میں ایسی ہی دو کوششوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ پاکستان سے پہلے امریکہ اور کینیڈا دونوں اپنی سرزمین پر انڈین ایجنٹس کی جانب سے قتل کی کوشش کرنے کا الزام لگا چکے تھے۔
دفتر خارجہ میں سیکرٹری خارجہ سائرس قاضی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ہمارے پاس دو پاکستانی شہریوں شاہد لطیف اور محمد ریاض کو انڈیا کی جانب سے قتل کیے جانے کے مصدقہ ثبوت موجود ہیں اور قاتلوں کے تانے بانے دو انڈین شہریوں سے ملتے ہیں۔‘
سائرس قاضی کا کہنا تھا: ’پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے شواہد کی بنیاد پر بے نقاب کیا کہ محمد ریاض اور شاہد لطیف کے قتل میں انڈین شہری اشوک کمار آنند اور یوگیش کمار براہ راست ملوث ہیں۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے محمد ریاض اور شاہد لطیف کے ٹارگٹ کلرز کو ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں گرفتار کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’قتل میں ملوث ٹارگٹ کلرز، ان کے ساتھیوں اور سہولت کاروں کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ پاکستان سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
سیکریٹری خارجہ نے بتایا کہ ’شاہد لطیف کو ڈسکہ، سیالکوٹ میں انڈین شہری یوگیش کمار نے مقامی اجرتی قاتل عمیر کے ذریعے قتل کروایا، جس نے شاہد لطیف کو قتل کرنے کے لیے پانچ ٹارگٹ کلرز کی ٹیم بنائی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عمیر کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دوسرا کیس محمد ریاض کا ہے جسے راولاکوٹ میں فجر کے وقت قتل کیا گیا۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ محمد عبداللہ علی نے آٹھ ستمبر کو محمد ریاض کو قتل کیا اور ایک تیسرے ملک میں انڈین ایجنٹوں سے پیسے وصول کیے۔
’تحقیقاتی اداروں کے پاس مستند شواہد ہیں کہ اس پوری ٹارگٹڈ کلنگ مہم میں تیسرے ملک میں موجود انڈین شہری شامل ہیں جو اس کی فنڈنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایات بھی دے رہے تھے اور مہم کو کنٹرول بھی کر رہے تھے۔‘
سائرس قاضی نے بتایا کہ ’جب یہ قتل کیے گیے تو انڈین سوشل میڈیا کے سرکلز میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔ قاتلوں کے بیانات میں نیٹ ورک کا بتایا گیا۔ قاتلوں کے رابطے، ادائیگیوں اور دیگر پشت پناہی کے تمام شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں۔‘
پاکستانی شہریوں کو انڈیا نے قتل کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’قتل کیے جانے محمد ریاض اور شاہد لطیف پرامن شہری تھے اور ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انھوں نے کشمیر میں جاری ظلم اور بربریت اور انڈیا کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کیا تھا۔‘
پاکستانی سیکریٹری خارجہ کی اس وقت کی پریس بریفنگ کے جواب میں انڈیا کی وزارت خارجہ نے پاکستانی بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان جو بوئے گا وہی کاٹے گا۔‘