ڈرپوک بنیں، آپ کی رائے آپ کی زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہے، کوئی شیر نہیں ہوتا، کوئی گیدڑ والی کہانی نہیں ہے، سارا معاملہ آپ کی سیفٹی کا ہے، سکون والی اور محفوظ زندگی کون نہیں گزارنا چاہتا؟
اتنی وسیع و عریض کائنات میں ایک بالکل چھوٹی سی دنیا اور اس دنیا کا ایسا ایک ملک کہ جس کا پاسپورٹ اور معیشت، دونوں آپ کے سامنے آخری ترین نمبروں پہ ہیں، ادھر ضرورت سے زیادہ بول کر سوائے اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے کے، آپ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔
نان وائلنس کی مثالیں اس دنیا میں ہمیں بہت کم ملتی ہیں، ہمارے خطے میں ایک گاندھی صاحب تھے، انہیں مذہب کی وجہ سے ہمارے کورس میں زیادہ شامل نہیں کیا گیا، ان کے ساتھ خان عبدالغفار خان تھے، انہیں تو ان کی زندگی میں بھی ریاست نے کسی چیز میں شامل نہیں کیا، وفات کے بعد کیا کریں گے، حالانکہ وہ ایسی شخصیت تھے جن کا نام نیلسن منڈیلا نے بطور استاد لیا تھا۔
اگر نان وائلنس کے بارے میں پڑھایا جائے گا تو یہ دو نام ضرور آئیں گے، یہ دو نام آئیں گے تو اس ضروری ترین چیز کا راستہ سیدھا ہو گا جس کی بات میں آپ سے کر رہا ہوں اور جسے کہا جا رہا ہے ’ڈرپوک بننا اور چپ رہنا۔‘ وہ لوگ چپ نہیں رہے لیکن جس راستے کو انہوں نے برتا، ہمارے پاس وہ راہ دکھانے والا ہی کوئی رہنما اس وقت سرے سے موجود نہیں۔
ہماری زبان میں تیز بولنے، ہر وقت لڑائی کے لیے تیار رہنے، جو بات ہمیں ’حق‘ لگتی ہو اسے طاقت کے ساتھ پھیلانے، دوسروں کو زبردستی اپنے راستے پر لانے، ہر بھٹکے ہوئے کی اصلاح کرنے اور کچھ نہ ہو تو سوشل میڈیا پہ اپنا سچ پھیلانے والوں کے لیے بے تحاشا تعریفی خطاب موجود ہیں، جیسے بہادر، شیر، نر، نڈر، جنگجو، حریت پسند، عسکریت پسند، انقلابی وغیرہ وغیرہ، لیکن ان سب چیزوں سے اگر کوئی دور رہنا چاہے اور اپنی زندگی اور اپنے مالی معاملات پہ توجہ دینا پسند کرے تو اس کے لیے پتہ ہے کون سے لفظ ہیں؟
ڈرپوک، بنیا، کمزور، مصلحت پسند اور اس جیسے بہت سے لفظ ہیں جن سے چاہنے والے آپ کو یاد کرتے رہا کریں گے۔ امن پسند یا صلح جو کا خطاب بھی تب جا کر آپ کو ملے گا جب آپ اپنی بات دنیا کو منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جیسے فیض صاحب تھے، بھئی فیض احمد فیض کی بات ہو رہی ہے، ابھی کل ہی سجاد انور منصوری صاحب نے کیا خوب لکھا کہ ’وہ بھی کیا دور تھا کہ جب کوئی فیض کہتا تو اس سے مراد فیض احمد فیض ہوتے تھے۔‘
آپ کے نزدیک اپنی چھوٹی سی دنیا اور اپنی زندگی کیا قیمت کیا ہو گی؟ فرض کریں آپ اپنے دام ایک ارب لگاتے ہیں، اب ایک ارب روپے آپ کے سامنے ہوں یا آپ کو لگتا ہو کہ آپ کی بہادری اور آپ کا سچ آپ کو اس ایک ارب تک لے جائیں گے تو بے خوف جو مرضی کریں، ظالم حکمران کے خلاف نعرے لگائیں، اسٹیبلشمنٹ کو سوشل میڈیا پہ لتاڑیں، ریاست سے الجھتے پھریں، اٹھائے جائیں (اس کے بھی دور رخ ہیں، ابھی مزید تفصیل سے دیکھتے ہیں)، تو اٹھائے جائیں، یا مشکلات کا سامنا کریں، لیکن اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو بہت زیادہ غوروفکر کریں کہ آپ کے انقلابی قدم کسی دوسرے کے ایک ارب روپوں کا راستہ سیدھا تو نہیں کر رہے؟
نظریہ، کمٹمنٹ، اصول یہ سب آپ کو کسی مقصد سے جوڑنے کے لیے بنائے گئے راستے ہوتے ہیں، آپ کا پہلا مقصد خود آپ کی امن شانتی والی زندگی اور اسے گزارنے کے لیے معقول پیسہ ہونا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب اٹھائے جانے کی بات کر لیں، ایک تو وہ ہے کہ جس میں آپ غائب ہو جاتے ہیں، دوسری قسم وہ بھی ہے جس میں فیس بک، انسٹا، یوٹیوب یا ٹک ٹاک آپ کو ہزاروں فالوورز ہونے کے باوجود غائب کر دیتا ہے، آپ بین ہو جاتے ہیں، آپ کی ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے، بعض اوقات تو آپ کا روزگار بھی وہی ہوتا ہے، تو کیوں رہنا ہے ایسے بارڈر پہ؟
قسمت میں جو گولی لکھی ہے اس نے آپ کو لگنا ہی لگنا ہے لیکن جو کان کے برابر سے گزر رہی ہے اس کے آگے اپنا منہ خود کیوں لاتے ہیں بھائی؟
آپ کے ملک میں مذہب، سیاست، ذاتیات، مخالف جنس، خاندان، یہ سارے دائرے ایسے ہیں جن میں آپ اگر کوئی بھی ایک رائے رکھتے ہوں گے تو اس کے مخالف ہو ہی نہیں سکتا کہ دوسرے لوگ اپنے خیالات نہ رکھتے ہوں، جب رکھتے ہیں تو ان پہ اصرار کرنا اور اس ضد کا لڑائی جھگڑے میں بدل جانا بھی آپ ہی کے یہاں کا ایک دستور ہے، اور پوری دنیا ایسی ہی ہے، ٹرمپ، مودی، جنگل ۔۔۔ جنگلوں کا قانون شاعری میں ہوتا ہو گا، عام زندگی میں یہاں رہنا ہے تو بس بچیں، اگر تھوڑی بہت بولنے کی جگہ ملی ہوئی ہے تو اسے احتیاط سے استعمال کریں اور نیویں نیویں ہو کے گزر جائیں، سکھی رہیں گے۔
ہاں اگر بہت ہی ضروری لگ رہا ہے بولنا، تو سوچیں کہ آپ کے آئیڈیل کون لوگ ہیں جو بولتے ہیں؟ پھر یہ چیک کریں کہ ان کی بیک کتنی مضبوط ہے، وہ کس پلیٹ فارم سے بات کر رہے ہیں، وہ کس ایجنڈے پہ ہیں؟ مالی طور پہ وہ کتنے مضبوط ہیں اور کیسے ہیں؟ کیا ان کے رابطے اتنے اوپر تک ہیں کہ انہیں بچایا جا سکتا ہے؟
جب یہ چیک کر لیں تو مڑ کے اپنی کمر دیکھ لیں، اپنا خاندان دیکھ لیں۔
کوئی بھی حل نظر نہ آئے، چپ رہنا بھی مشکل ہو تو سکون سے ہجرت کے فلسفے پہ غور کریں، دنیا میں آپ کی زندگی ایک ہی بار ہے، یہاں سے جانے کے بعد آپ کو ’رہبر اعظم‘ کے نام سے بھی کوئی یاد کرتا رہے، پریکٹیکلی آپ کو اس کا فائدہ کوئی نہیں ہو گا۔