پاکستان کو نئے جغرافیائی حقائق سے نمٹنا ہو گا

نئے جغرافیائی منظر نامے میں پاکستان جس طرح اپنا کردار بیان کر رہا ہے وہ کافی نہیں۔

18 جنوری، 2024 کی اس تصویر میں ایک سکیورٹی اہلکار اسلام آباد میں واقع دفتر خارجہ کے باہر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

آئندہ 12 سال جنوبی ایشیا کے لیے بہت اہم ہوں گے، جیسے 1938 سے 1950 کے درمیان کا وقت تھا، جب عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئیں اور نو آبادیاتی سلطنتوں کے بطن سے نئے ممالک وجود میں آئے۔

پاکستان صرف مقامی حالات کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ عالمی سطح پر مختلف ملکوں کے درمیان تعلقات کی تنظیم نو کے وسیع تر تناظر میں قائم کیا گیا۔

خاص طور پر بحر اوقیانوسی منشور کے تحت۔ یہ معاہدہ برطانوی وزیر اعظم، امریکی صدر اور مغربی اتحاد کے درمیان ہوا جس نے ابھرتے ہوئے عالمی نظام کے پیش نظر سٹریٹجک ضروریات سے متاثر ہو کر برطانوی ہندوستان کی آزادی کی بنیاد رکھی۔

پاکستان کو خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین کے اثرورسوخ کے مقابلے کے لیے ایک منفرد کردار ادا کرنے والے ملک کے طور پر دیکھا گیا۔

تاہم 1990 کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد عالمی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس میں مشرق اور مغرب کے درمیان نظریاتی کشیدگی میں بتدریج کمی آئی۔

لیکن اس کشیدگی کے خاتمے کے بعد اب پاکستان کو ٹھوس حقیقت کا سامنا ہے یعنی اسے تیزی سے بدلتی دنیا میں اپنا کردار دوبارہ متعین کرنا ہو گا۔

اس نئے جغرافیائی منظر نامے میں پاکستان جس طرح اپنا کردار بیان کر رہا ہے وہ کافی نہیں۔

وہ سرحدیں جو پرانے دور کی ضروریات کی بنیاد پر بنائی گئیں تھیں اب ان پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے اگر پاکستان کو مضبوط اور مستقل قوم رہنا ہے تو۔

یہ نئی تعریف داخلی اور خارجی دباؤ سے متاثر ہو کر نئی جغرافیائی سرحدوں کی تشکیل کا بھی سبب بن سکتی ہے۔

ایک طرف ہم قوم پرست تحریکوں کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں جو علاقے کی موجودہ سرحدوں کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔

پاکستان کے مختلف صوبوں میں محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے اور کچھ گروہ زیادہ خود مختاری یا یہاں تک کہ علیحدگی کی کوششیں کر رہے ہیں۔

دوسری طرف، پنجاب جو پاکستان کی دل کی حیثیت رکھتا ہے، میں شدت پسند عناصر، مثال کے طور پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا ابھرنا دیکھنے میں آ رہا ہے، جو مذہبی جذبات اور رائے عامہ کا فائدہ اٹھا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

یہ دونوں طاقتیں، قومی تحریکیں ایک طرف اور شدت پسند نظریات دوسری طرف، ایک ایسے تصادم کی بنیاد رکھ رہی ہیں جو 1947 کی تقسیم کے دوران ہونے والے تشدد کی عکاسی کرتا ہے۔

اس صورت حال کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سکیورٹی سٹیبلشمنٹ کے درمیان سیاسی لڑائی نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

یہ دونوں بڑے گروہ پاکستان کے وفاق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ لڑائی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس سے ریاست کے مزید کمزور ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان جو علاقائی اور نظریاتی خطرات کے خلاف ڈھال کے طور پر بنایا گیا، اب دوراہے پر کھڑا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی بقا کے لیے ملک کو اپنی سرحدوں کی تعریف سمیت شدت پسندی اور علاقائی مسائل سے نمٹنے کے طریقوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنی پڑ سکتی ہیں۔

اگر موجودہ صورت حال سے احتیاط کے ساتھ نہ نمٹا گیا تو یہ تقسیم کے دوران کے تجربات کی مانند ایک اور تشدد کے ایک دور اور عدم استحکام کی طرف لے جا سکتی ہے۔

قوم پرست خواہشات اور انتہا پسندانہ اثرات دونوں کی وجہ سے بدامنی کا یہ خطرہ خطے کو ایک بار پھر اپنے جغرافیائی منظر نامے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جبکہ سیاسی، سماجی اور نظریاتی طاقتوں کو جگہ دینے کے لیے نئی لکیریں کھینچنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یہ صورت حال مضبوط قومی نظریے کی متقاضی ہے جو پاکستان کے حقیقی نظریے کو اپنائے یعنی متحد، خود مختار ریاست جو اندرونی اور بیرونی خطرات کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو۔

لیکن یہ قوم پرستی آگے کی طرف دیکھنے والی ہونی چاہیے جو آج کی جغرافیائی حقیقتوں کے مطابق ہو۔

یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مستقبل میں پھلنے پھولنے کے لیے اپنے ماضی کی تعریفات پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور ضروری تبدیلیوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

بلکہ اسے دنیا میں اپنی شناخت اور کردار کی دوبارہ تشکیل کے لیے سوچ سمجھ کر عمل شروع کرنا ہوگا۔ ایسا عمل جو لوگوں کی ضروریات اور ابھرتے ہوئے عالمی نظام کو مدنظر رکھے۔

خطہ ایک بار پھر تبدیلی کے دہانے پر ہے اور تبدیلی کے اس عمل سے نمٹنے کی پاکستان کی صلاحیت اس کی مستقبل کی طاقت اور استحکام کا تعین کرے گی۔

دو دوسرے ملکوں انڈیا اور بنگلہ دیش کا بھی اس تبدیلی میں اہم کردار ہے اور ان تین ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری اس خطے کی اگلی دہائی کا تعین کرے گی۔

اگر ان ملکوں کے درمیان تنازع بڑھا تو مستقبل کے جغرافیائی نقشے کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

پھر بھی، چاہے نئی سرحدوں کے ذریعے، مضبوط حکمرانی کے ذریعے یا شدت پسند نظریات کے ابھرنے کا سامنا کر کے، آنے والے برسوں کو نئے سٹریٹجک نظریے کی ضرورت ہوگی جو پاکستان کے مقام کو ہمیشہ سے بدلتی دنیا میں یقینی بنائے۔

مصنف پاکستان کے سابق وفاقی وزیر ہیں۔ یہ تحریر پہلی بار عرب نیوز پاکستان پر شائع ہوئی تھی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ