میر ویس عزیزی افغانستان میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کی تصدیق کرنا مشکل ہے تاہم افغان عوام میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ ملک کے سب سے امیر ترین فرد ہیں۔
وہ افغانستان کے سب سے بڑے کمرشل بینک عزیزی بینک کے چیئرمین ہیں، جس کی ملکی معیشت میں ایک کلیدی حیثیت ہے۔
’دی نیشنل‘ کے مطابق میر ویس عزیزی دبئی میں بھی اتنے ہی مشہور ہیں، جہاں وہ گذشتہ تین دہائیوں سے مقیم ہیں۔ دبئی میں کہیں نہ کہیں ان کا نام کسی عمارت یا بل بورڈ پر ضرور نظر آتا ہے۔
عزیزی ڈویلپمنٹس، دبئی کی بڑی جائیداد بنانے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے، جس کے مقامی منصوبوں کی مجموعی مالیت ان کے دفتر کے مطابق 60 ارب ڈالر تک ہے، جو افغانستان کی کل جی ڈی پی سے تین گنا زیادہ ہے۔ توقع ہے کہ اگلے سال دبئی کی شیخ زاید روڈ پر دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت، برج عزیزی بھی مکمل ہو جائے گا۔
جب 2021 میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا، خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی اور امریکی پابندیوں کے خطرات نمایاں ہوئے، تو عالمی مالیاتی نظام سے افغانستان کا تعلق تقریباً منقطع ہو گیا اور بہت سے عطیہ دہندگان نے افغانستان سے منہ موڑ لیا۔
لیکن عزیزی ایک مخیر شخصیت بھی ہیں۔ بین الاقوامی پابندیوں اور تحفظات کے باوجود، انہوں نے زلزلے سے متاثرہ علاقے سیا آب میں 300 نئے مکانات، ایک سکول، ایک کلینک، ایک کھیل کا میدان اور ایک پانی کا کنواں تعمیر کروایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی لوگ محبت سے اس منصوبے کو ’عزیزی ٹاؤن‘ کہتے ہیں — ایک ایسے شخص کے اعزاز میں، جس نے اس کی تعمیر پر تقریباً 30 لاکھ ڈالر خرچ کیے۔
عزیزی دبئی سے خود سیا آب پہنچے تاکہ ’عزیزی ٹاؤن‘ کا افتتاح کر سکیں، ان کے ساتھ طالبان حکومت کے عہدیدار بھی موجود تھے۔
لیکن جو بات انہوں نے تقریب میں کہی، وہ لوگوں، طالبان عہدیداروں اور افغان میڈیا سب کے لیے حیران کن تھی۔ انہوں نے افغانستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا، جس میں زیادہ تر سرمایہ توانائی اور ریلوے کے شعبوں میں لگایا جائے گا۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارم دی نیشنل نے گذشتہ فروری میں ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کی تاکہ افغانستان اور متحدہ عرب امارات میں ان کے فلاحی منصوبوں پر بات کی جا سکے۔
جب وہ سیا آب میں فیتہ کاٹ رہے تھے، تو عزیزی کی ذاتی زندگی کا ایک مشکل ترین دور چل رہا تھا۔ ان کی 30 سالہ بیٹی فریشتہ جرمنی میں کینسر کے علاج کے لیے زیرِ علاج تھیں۔ ان کی تشخیص 2022 میں ہوئی تھی، اور علاج اچھا چل رہا تھا، مگر دباؤ بہت زیادہ تھا۔
اپنے دفتر کے استقبالیہ کمرے میں ایک آرام دہ کرسی پر پیچھے کی طرف جھکتے ہوئے، انہوں نے پہلی بار عوامی طور پر انکشاف کیا کہ 10 ارب ڈالر کے وعدے کے بعد آنے والے مہینوں میں یہ منصوبہ کس قدر ناکامی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ عزیزی نے کہا کہ ابتدائی منصوبہ یہ تھا کہ وہ خود صرف تین ارب ڈالر لگائیں گے اور باقی رقم کے لیے اپنے سرمایہ کار دوستوں کے نیٹ ورک کو آمادہ کریں گے۔
انہوں نے کہا: ’میں بینکر ہوں اور میرے بہت سے دوست بھی بینکر ہیں۔ سوئٹزرلینڈ، سنگاپور اور کئی ملکوں میں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ اس منصوبے میں مدد کریں۔‘
لیکن طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے تین برسوں میں افغانستان کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ملک عالمی معیشت سے الگ ہو چکا ہے۔
عزیزی نے فنڈ حاصل کرنے کے لیے کئی ممالک کے دورے کیے۔ انہوں نے کہا: ’جب آپ اربوں ڈالر کی بات کرتے ہیں، تو یہ فون پر نہیں کی جا سکتی۔‘
اسی دوران، فریشتہ کی حالت تیزی سے بگڑنے لگی۔
فروری تک، جرمنی کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ فریشتہ کی صحت نازک ہو چکی ہے اور انہیں دبئی منتقل کر دیا گیا تاکہ وہاں ان کی دیکھ بھال کی جا سکے۔
دوسری طرف، افغان منصوبے کے لیے فنڈنگ کی تمام کوششیں ناکام ہو رہی تھیں۔ بین الاقوامی سطح پر طالبان حکومت کو نہ ماننا اور حد سے زیادہ پابندیاں ناقابلِ عبور رکاوٹیں بن چکی تھیں۔
آخری چارہ نہ ہونے پر، عزیزی نے خود ہی 10 ارب ڈالر ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور اگلے پانچ برسوں میں یہ رقم خرچ کرنے کا ارادہ کیا۔ اُن کا اندازہ ہے کہ وہ یہ سرمایہ اپنی موجودہ دولت، افغانستان میں اپنی بڑی تعمیراتی کمپنی کی ملکیت کو استعمال میں لا کر اور اپنے دیگر کاروباروں سے حاصل ہونے والی آئندہ آمدنی ملا کر فراہم کر سکتے ہیں۔
یہ سرمایہ کاری دنیا کے بیشتر ارب پتیوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا بوجھ ہوتی، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں سرمایہ کاری پر منافعے کی امید بہت کم ہو۔
لیکن عزیزی نے اصرار کیا کہ منافع ان کی ترجیح نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں ان کی پچھلی 23 سالوں کی ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے کبھی کوئی منافع حاصل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا: ’میں جانتا ہوں کہ پیسہ کیسے بنانا ہے — میں بہت اچھا پیسہ بناتا ہوں۔ میں نے 500 ڈالر سے شروعات کی تھی اور آج میں ارب پتی ہوں۔۔۔لیکن افغانستان میں، میں پیسے بنانے کے بارے میں نہیں سوچ رہا۔ میں وہاں کی زندگیاں بدلنا چاہتا ہوں اور اس ملک کی نئی کہانی بنانا چاہتا ہوں۔‘
اپنی سلطنت کی تعمیر
یہ سب اُس فیصلے سے شروع ہوتا ہے جو انہوں نے 1989 میں، 27 برس کی عمر میں افغانستان چھوڑنے کے حوالے سے کیا۔ وہ اس وقت کابل میں ایک مقامی لا آفس میں بطور ٹرینی کام کر رہے تھے۔ لیکن اسی سال سوویت یونین نے ایک دہائی طویل خونی قبضے کے بعد، جس کا مقصد کمیونسٹ افغان حکومت کو قائم رکھنا تھا، افغانستان سے اپنی باقی ماندہ افواج کا انخلا شروع کر دیا۔
سوویت یونین کی شکست نے اگرچہ ایک جنگ ختم کی، مگر ساتھ ہی ایک نئی جنگ کی بنیاد بھی رکھ دی۔ افغان کمیونسٹ پارٹی نے اگلے تین سال ہنگامی حالت کے تحت اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کی، جب کہ مختلف مسلح گروہ، جنہوں نے سوویت افواج کو باہر نکالا تھا، مسلسل ان پر دباؤ ڈالے ہوئے تھے۔
ہر کوئی جانتا تھا کہ ایک اور خانہ جنگی بس شروع ہونے ہی والی ہے۔
اس دور میں ہر پانچ میں سے ایک افغان نے ملک چھوڑا۔ انہی میں میر ویس عزیزی بھی شامل تھے، جنہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر ازبکستان کی جانب ہجرت کی۔ وہاں ان کی ملاقات ایک افغان تاجر سے ہوئی، جو ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ تھے۔
عزیزی کے پاس صرف 500 ڈالر تھے۔ انہوں نے اس تاجر سے 5000 ڈالر کا قرض مانگا تاکہ وہ یورپ جا سکیں۔ تاجر نے ایک بہتر پیشکش کی: وہ انہیں دو کنٹینر ٹیکسٹائل دے دے، جو وہ بیچ کر قرض واپس کریں اور منافع رکھ لیں۔
عزیزی کہتے ہیں: ’پہلے چھ ماہ میں میں نے 10 لاکھ ڈالر کما لیے اور اگلے چھ ماہ میں 70 لاکھ۔ جیسے جادو ہو، ہے نا؟‘
1994 تک عزیزی سوویت یونین کے بعد کی دنیا میں سگریٹ کی درآمد کے کاروبار میں بڑے کھلاڑی بن چکے تھے۔ ان کا مرکزی دفتر ازبک دارالحکومت میں تھا، لیکن ان کا نیٹ ورک مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں پھیلا ہوا تھا۔ ایک بار انہوں نے یو اے ای کے ایک ڈسٹری بیوٹر کا دفتر دیکھا، جو ان کی کہانی کو دبئی کی طرف لے گیا۔
انہیں انگریزی کم آتی تھی اور عربی بالکل نہیں، مگر وہ سمجھ گئے کہ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، خاص طور پر بنیادی ڈھانچے، گھروں اور سکولوں کے لحاظ سے۔
’پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا، مسٹر عزیزی، کیا آپ یہاں منتقل ہونا چاہیں گے؟‘ میں نے کہا: ’ہاں، ویزا کتنے دن میں ملے گا؟‘‘
ان کے میزبان نے صرف دو دن میں ان کا دفتر بنایا اور تمام کاغذی کارروائی مکمل کروا دی۔
چند ہی سالوں میں، مسٹر عزیزی نے سگریٹ کے کاروبار کو خیرباد کہہ دیا اور اپنی توجہ تیل کی تجارت، پیکیجنگ اور اسے اپنے ذاتی برانڈ کے تحت برآمد کرنے پر مرکوز کر دی۔ انہوں نے دبئی میں اپنی ایک مضبوط بنیاد قائم کی، جسے وہ بعد میں ارب پتی بننے کے لیے ایک سنگِ میل کے طور پر استعمال کرنے لگے۔
اپنے ملک پر نظر
جب عزیزی 1990 کی دہائی میں امیر ہوتے جا رہے تھے، ان کا آبائی وطن افغانستان دن بہ دن غریب ہوتا جا رہا تھا۔ نائن الیون کے بعد جب افغانستان میں ایک نیا جمہوری نظام قائم ہوا، جو ہزاروں نیٹو فوجیوں اور امریکی امداد کے اربوں ڈالر سے تقویت پا رہا تھا، تو یہ منظرنامہ سامنے آیا، جسے اُس وقت تک زندہ کوئی بھی افغان پہلے کبھی نہیں دیکھ پایا تھا: ایک متحد، جمہوری ملک، جس میں آزاد منڈی کا نظام ہو اور جس کی کامیابی میں عالمی برادری کی دلچسپی شامل ہو۔
میر ویس عزیزی، جو دبئی میں بیٹھے تھے، جہاں سے کابل صرف تین گھنٹے کی پرواز پر تھا، نے محسوس کیا کہ انہیں خود جا کر یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے۔
بطور تیل کے تاجر، انہوں نے پیٹرول پمپس اور سٹوریج کے منصوبوں سے شروعات کی اور تقریباً پانچ ہزار لوگوں کو ملازمت دی۔ انہوں نے اپنے ہفتے دبئی اور کابل کے درمیان تقسیم کیے اور جلد ہی جائیداد اور تعمیرات کے شعبے میں قدم رکھ دیا۔
ایک اندازے کے مطابق 2000 کی دہائی کے وسط تک، عزیزی گروپ افغانستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی 70 فیصد مارکیٹ پر قابض تھا۔ وہ کابل میں انفراسٹرکچر جیسے سیوریج سسٹم اور درجنوں اپارٹمنٹ کمپلیکس کی تعمیر میں بھی شریک تھے۔
لیکن ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی 2006 میں عزیزی بینک کی بنیاد۔
اسی دوران، عزیزی نے دبئی کے پراپرٹی کے شعبے میں قدم رکھا اور 2007 میں اپنی کمپنی عزیزی ڈویلپمنٹس شروع کی۔ یہ جگہ درست مگر وقت غلط تھا، کیونکہ ان کے پہلے منصوبے، یعنی دو رہائشی ٹاورز کی لانچ کے صرف چند ماہ بعد، جن میں وہ تقریباً 100 اپارٹمنٹس آف پلان سرمایہ کاروں کو فروخت کر چکے تھے، عالمی مالیاتی بحران شروع ہو گیا۔
میر ویس عزیزی مالیاتی بحران کے دوران نقصان اٹھانے والے اس خطے کے واحد پراپرٹی ڈویلپر نہیں تھے، لیکن وہ اپنے ساتھیوں میں اس بات کے لیے مشہور ہیں کہ انہوں نے جس قوت اور عزم کے ساتھ دوبارہ ترقی حاصل کی، وہ قابلِ تعریف ہے۔ مارکیٹ نے ان کی اس واپسی کو خوب سراہا۔ 2018 تک دبئی میں ان کے منصوبوں کی مجموعی مالیت 12 ارب ڈالر تک جا پہنچی، جو 200 سے زائد پراپرٹی منصوبوں پر مشتمل تھی۔
خود عزیزی دبئی کے منظرنامے کا ایک حصہ بن چکے تھے، اپنی عمارتوں کی طرح نمایاں اور پہچانے جانے والے۔ اسی وجہ سے انہیں ’افغان امبانی‘ کا لقب ملا، جو کہ انڈین ارب پتی مکیش امبانی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں یہ حیثیت پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کو حاصل ہے، لہذا عزیزی کو اگر ’افغانستان کا ملک ریاض‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
پھر بھی، میر ویس عزیزی نے افغانستان سے اپنا ناتا مضبوطی سے جوڑے رکھا۔ آخرکار وہ اس ملک میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں، لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ وہ ’ایسی چیز بنانے کا سوچ رہے ہیں، جو پچھلے 100 سال میں کسی نے نہیں بنائی،‘ یعنی ایک ایسا بجلی گھر جو افغانستان کی ضروریات پوری کرے۔
آج 20 سالہ امریکی قبضے کے بعد بھی، جس کے دوران مغربی ممالک نے افغان توانائی کے شعبے میں اربوں ڈالر جھونک دیے، افغانستان کے شہری علاقوں میں آدھے سے بھی کم لوگ بجلی تک رسائی رکھتے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں ہر 10 میں سے صرف ایک شخص کو بجلی میسر ہے۔
ملک کی تقریباً 80 فیصد بجلی پڑوسی ممالک سے درآمد کی جاتی ہے، مگر یہ نہ صرف غیر یقینی ہے بلکہ تیزی سے مہنگی بھی ہوتی جا رہی ہے۔
بار بار بجلی کی بندش کے باعث صفائی ستھرائی کے نظام سے لے کر ہسپتالوں میں سرجری تک بہت سے اہم کام متاثر ہوتے ہیں۔ پورے افغانستان میں لوگ اکثر کوئلہ حتیٰ کہ کچرا تک جلا کر اپنے گھروں کو گرم کرنے پر مجبور ہیں۔
لیکن افغانستان میں بجلی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ افغان وزارت توانائی و پانی کے مطابق، ملک کو اس وقت تقریباً 15 ہزار میگاواٹ بجلی درکار ہے۔
ایسے میں افغانستان کے لیے سب سے بہتر امید ایسا سرمایہ کار ہوگا، جو طویل المدتی بنیادوں پر کام کر سکے اور جس کے لیے منافع بنیادی مقصد نہ ہو۔ میر ویس عزیزی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایسے ہی سرمایہ کار ہیں۔
ان کے توانائی کے منصوبے میں شامل ہے کہ وہ کابل میں 200 میگاواٹ کا ایک سولر پلانٹ تعمیر کریں، جسے وہ اس خزاں میں مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اگلے پانچ برسوں میں وہ پورے ملک میں ’درجنوں بجلی پیدا کرنے والے مراکز‘ قائم کرنا چاہتے ہیں، جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 10 ہزار میگاواٹ ہوگی۔
ان کا حتمی ہدف صرف افغانستان کو بجلی فراہم کرنا نہیں، بلکہ اسے بجلی برآمد کرنے والا ملک بنانا ہے۔
بیٹی کے نام پر میڈیکل سٹی کے قیام کا اعلان
29 اکتوبر 2024 کو، وہ دبئی کے ایک ہسپتال کے بستر کے پاس کھڑے تھے، وہ بہت کمزور ہو چکی فریشتہ کو دیکھ رہے تھے، جو کچھ ہی دیر بعد انتقال کر گئیں۔
فریشتہ کو تین دن بعد دبئی کے القصیص قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ افغانستان سے بھی بہت سے لوگ تعزیت کے لیے آئے۔ ان میں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد بھی شامل تھے، جنہوں نے ذاتی طور پر تعزیت کی۔
20 فروری کو، عزیزی نے کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں ایک سٹیج پر خطاب کیا، جہاں ان کے ارد گرد تقریباً تمام افغان نشریاتی اداروں کے مائیکروفونز موجود تھے۔ ان کے دائیں جانب طالبان کے ’اسلامی امارت افغانستان‘ کا پرچم تھا اور ان کے سامنے طالبان انتظامیہ کے تقریباً تمام سینیئر رہنما، درجنوں کاروباری افراد اور عملے کی بڑی تعداد موجود تھی۔
وہاں، انہوں نے نہ صرف اپنے 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری منصوبے کا اعلان کیا، بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ 50 کروڑ ڈالر دے رہے ہیں تاکہ کابل کے جنوب میں فریشتہ عزیزی میڈیکل سٹی قائم کیا جائے، جس میں ایک 400 بستروں پر مشتمل کینسر کا علاج کرنے والا ہسپتال، 200 بستروں پر مشتمل زچگی اور امراض نسواں کا ہسپتال، 10 ہزار بچوں کے لیے یتیم خانہ، ایک میڈیکل یونیورسٹی، ایک نرسنگ سکول اور طبی طلبہ اور ڈاکٹروں کے لیے رہائش گاہیں شامل ہیں۔
اس منصوبے کی ویڈیو طالبان حکام کو دکھائی گئی، جس میں لڑکیوں کے لیے ایک ہائی سکول کے قیام کے منصوبے بھی شامل تھے۔
افغانستان میں اس وقت چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ پابندی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ ملک ایک مزید ’موزوں، اسلامی‘ تعلیمی نظام تیار نہیں کر لیتا، لیکن فی الحال یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہ جلدی ہو سکے گا۔
تاہم اگر عزیزی کی کہانی کچھ ظاہر کرتی ہے تو شاید یہ کہ وہ بڑے مقصد کی خاطر خطرہ مول لینے سے نہیں گھبراتے۔ ماضی میں بھی یہی طرزِ عمل ان کے لیے کامیاب رہا ہے۔
انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں طالبان حکام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کو غربت سے نکالنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ تعلیم کے دروازے اپنے تمام شہریوں بشمول لڑکیوں کے لیے کھولے۔
انہیں امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ طالبان بھی اس مؤقف کو قبول کر لیں گے اور کم از کم اس دن، کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔