ایک زمانہ تھا کہ زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کا نام اخبارات میں شائع نہیں ہوتا تھا، اور ان کے نام ’ش‘ یا ’ج‘ وغیرہ لکھے جاتے تھے۔
کچھ ایسی ہی احتیاط سکیورٹی سے وابستہ محکموں کے ضمن میں بھی برتی جاتی تھی۔ ان کے حوالے سے خبر یوں شائع ہوتی تھی کہ ’حساس ادارے کے افسر کی گاڑی کی ٹکر سے سائیکل سوار زخمی۔‘
پہلے میں سمجھتا تھا کہ حساس ادارے سے مراد شاید کوئی ایسا ادارہ ہے جس کے افسران حساس طبیعت کے مالک ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر ان کی دل آزاری ہو جاتی ہے، لیکن پھر میں بڑا ہو گیا اور مجھے سمجھ آ گئی کہ ذمہ دار صحافت کے اصولوں کے تحت اس قسم کی احتیاط کرنا لازمی ہے۔
تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا مزید ذمہ دار ہو گیا ہے اور اب یہ ذمہ داری مردوں کے ضمن میں بھی نبھائی جا رہی ہے، ٹی وی اوراخبارات اب مردوں کا نام لینے سے یوں شرما رہے ہیں جیسے کوئی پردہ دار بی بی کسی نامحرم کے سامنے جانے سے شرماتی ہے۔
تاہم فی الحال یہ احتیاط تمام مرد حضرات کے ضمن میں نہیں برتی جا رہی بلکہ یہ سعادت صرف ایک پراپرٹی ٹائیکون کے حصے میں آئی ہے، جن کا ذکر گذشتہ دو دنوں سے میڈیا میں ہو رہا ہے مگر ایسے کہ ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔‘
میری سمجھ ذرا کم ہے اس لیے میں شروع میں سمجھ نہیں پایا تھا کہ یہ کس میڈیا ٹائیکون کا ذکر خیر ہے۔ جن اِکا دُکا پراپرٹی ڈیلرز کو میں جانتا ہوں انہیں تو ٹائیکون کے ہجے بھی نہیں آتے تھے، سو ان سے میں کیا پوچھتا۔
پھر کسی ٹی وی چینل پر ایک جی دار رپورٹر نے پوچھ ہی لیا کہ یہ کس پراپرٹی ٹائیکون کا ذکر ہے کہ جس کا نام لینے میں آپ کو تامل ہے؟
جواب دینے والے نے تقریباً دلہا کی طرح دانتوں میں رومال دبا کر بمشکل ’ہمم‘ ہی کیا تھا کہ کسی نے دوسرا سوال داغ دیا۔
اس ’ہمم‘ سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ وہی صاحب ہیں جو ملک کی کم و بیش تمام جماعتوں اور محکموں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ میں ان کا نام کیوں نہیں لکھ رہا تو گزارش ہے کہ اگر ملک کے کرتا دھرتا ان کا نام لینے سے ڈرتے ہیں تو میں بھلا کس کھیت کی مولی ہوں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے بھی مجھے ہیرو بننے کا کوئی شوق نہیں، اس ملک میں ہیرو بننے کی جو قیمت چکانی پڑتی ہے مجھ ایسا مسکین اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سچ پوچھیں تو ہمارے اس پراپرٹی ٹائیکون کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملنا چاہیے۔
یہ وہ بندہ ہے جو کروڑوں نہیں تو لاکھوں نوجوانوں کا رول ماڈل ہے، اس بندے نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اس ملک میں کامیابی کے لیے اخلاقیات اور اقدار وغیرہ کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، ضمیر کی آواز سن کر بھٹکنا نہیں چاہیے اور کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کی تو بالکل پروا نہیں کرنی چاہیے، یہ باتیں فقط پڑھنے اور سننے میں لطف دیتی ہیں، حقیقت میں ان باتوں سے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔
لیکن ہمارے پراپرٹی ٹائیکون کی ہمہ گیر شخصیت کا یہ صرف ایک پہلو ہے اور یہ کوئی قابل ذکر پہلو نہیں کیونکہ اس طرح کے کئی ارب پتی اور بھی ہوں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو میڈیا ’حساس ادارے کے افسر کی گاڑی کی ٹکر‘ والی خبر سے کہیں آگے نکل چکا ہو اور اکثر و بیشتر سرخ لکیر کی پروا بھی نہ کرتا ہو، آخر اس میڈیا میں پراپرٹی ٹائیکون کا نام لینے کی جرات کیوں نہیں؟
ہمارے قومی شاعر نے غالباً اسی پراپرٹی ٹائیکون کے بارے میں کہا تھا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
یہ گاہک تجھ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ویسے پراپرٹی ٹائیکون کو چاہیے کہ کسی شاعر کو دو چار ہزار روپے دے کر اس شعر میں کچھ ایسی ترمیم کروا لے:
رقم کو کر بلند اتنا کہ ہر اک ڈیل سے پہلے
کسٹمر تجھ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور پھر یہ شعر اپنے نام کے ساتھ ہر سوسائٹی کے دروازے کی پیشانی پر لکھوا دے تاکہ قوم کے نوجوان اس سے تحریک پکڑیں اور دل لگا کر پلاٹوں کی فائلیں بیچیں۔
اگر آپ میں سے کسی کا خیال ہے کہ میں پراپرٹی ٹائیکون کا ’توا‘ لگانے کی کوشش کر رہا ہوں تو اس کا خیال غلط ہے۔ میں حقیقتاً موصوف کی صلاحیتوں کا معترف ہوں اور کیوں نہ ہوں، آخر جو شخص میٹرک پاس بھی نہیں، اس نے آدھا پاکستان اپنی جیب میں رکھا ہوا ہے۔
میڈیا میں اکثر ایک لفظ استعمال ہوتا ہے، ’اسٹیبلشمنٹ،‘ جس کا مطلب دودھ پیتے بچے کو بھی معلوم ہے۔ عموماً جب کسی ادارے پر تنقید کرنا مقصود ہو تو ملفوف انداز میں اس لفظ کا سہارا لے کر کام چلایا جاتا ہے۔ لیکن آفرین ہے ہمارے پراپرٹی ٹائیکون پر کہ انہوں نے میڈیا کو اتنی سی اجازت بھی نہیں دی۔ تو کیا ہم سمجھیں کہ اب یہ پراپرٹی ٹائیکون ہی نئی اسٹیبلشمنٹ ہے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔