افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’امریکہ نے افغان طالبان رہنما سراج الدین حقانی کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ امریکی ڈالر کی انعام کی پیشکش واپس لے لی ہے۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے ہفتے کو کابل میں بتایا کہ امریکہ نے طالبان کے ایک اہم رہنما سراج الدین حقانی کی گرفتاری کی اطلاع دینے پر 10 ملین ڈالر (ایک کروڑ ڈالر) کے انعام کی پیشکش کو ختم کر دیا ہے۔‘
روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ایف بی آئی نے اب بھی اپنی ویب سائٹ پر انعامات کی فہرست دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حقانی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف سرحد پار حملوں میں ہم آہنگی اور ان کے کروانے میں شریک تھے۔‘
سراج الدین حقانی افغانستان کے پہلے نائب رہنما اور 2021 کے بعد سے طالبان حکومت میں قائم مقام وزیر داخلہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ 2015 سے طالبان کے نائب رہنما رہے ہیں اور 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد انہیں وزارتی ذمہ داری پر بھی تعینات کیا گیا تھا۔
2018 میں اپنے والد سے وراثت میں ملنے کے بعد سے انہوں نے حقانی نیٹ ورک کی قیادت کی، جو طالبان کا نیم خودمختار نیم عسکری دستہ سمجھا جاتا ہے۔
وزیر داخلہ کی حیثیت سے ان کا ملک کی اندرونی سکیورٹی فورسز کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول ہے۔
طالبان کے نائب رہنما کے طور پر انہوں نے امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف مسلح لڑائی کی نگرانی کی۔
سراج الدین حقانی اس وقت ایف بی آئی کو 2008 کے کابل سرینا ہوٹل حملے میں ان کے کردار کی وجہ سے پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ہیں۔ اس حملے میں چھ افراد جان سے گئے تھے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے انہیں خصوصی طور پر ’عالمی دہشت گرد‘ نامزد کیا اور ان کے بارے میں معلومات دینے پر ایک کروڑ ڈالرکے انعام کی پیشکش کی ہوئی ہے۔