’دی کشمیر ریزسٹنس‘ نامی کشمیری گروپ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

اس تنظیم پر انڈیا نے جنوری 2023 میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، 1967 کے تحت ایک دہشت گرد کے طور پر پابندی عائد کر دی تھی۔

22 مارچ، 2022 کو سری نگر میں پولیس ہیڈ کوارٹر میں پھولوں کی چادر چڑھانے کی تقریب کے دوران، جنیمار کے علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے ایک پولیس افسر کے تابوت کے پاس ان کے رشتہ دار ماتم کر رہے ہیں (توصیف مصطفی/ اے ایف پی)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں طویل عرصے بعد ایک بڑے شدت پسندانہ حملے کی ذمہ داری سوشل میڈیا پر ’دی کشمیر ریزسٹنس فرنٹ‘ نامی نسبتاً غیر معروف عسکریت پسند گروپ نے قبول کی ہے۔ اس تنظیم کا نام پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے، پس منظر کیا ہے؟

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس تنظیم نے الزام لگایا کہ خطے میں 85 ہزار سے زائد ’باہر کے لوگوں‘ کو بسایا جا رہا ہے جس سے خطے میں آبادیاتی تبدیلی آرہی ہے۔

ٹی آر ایف کا کہنا ہے کہ ’یہ غیر مقامی سیاح بن کر آتے ہیں، ڈومیسائل حاصل کرتے ہیں، اور پھر ایسا کام کرتے ہیں جیسے وہ زمین کے مالک ہوں۔ اس کے نتیجے میں تشدد ان لوگوں کے خلاف ہوگا جو غیر قانونی طور پر آباد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

اس تنظیم پر انڈیا نے جنوری 2023 میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، 1967 کے تحت ایک دہشت گرد کے طور پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انڈین حکومت نے یہ فیصلہ بقول اس کے اس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں جیسے کہ نوجوانوں کی آن لائن بھرتی، دراندازی میں سہولت فراہم کرنے اور جموں و کشمیر میں ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ میں تعاون کی وجہ سے پابندی عائد کی تھی۔

تنظیم کے کمانڈر سمجھے جانے والے شیخ سجاد گل کو  بھی 1967 کے ایکٹ کے تحت دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے پر ناصرف انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بلکہ دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ پاکستان نے اس فیصلے کی مذمت کی تھی۔

انڈین میڈیا کے مطابق یہ عسکری کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے پراکسی کے طور پر کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تنظیم اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد قائم ہوئی۔ خیال ہے کہ یہ شدت پسند گروپ ابتدائی طور پر ایک آن لائن ادارے کے طور پر شروع ہوا، جو بنیادی طور پر نوجوانوں کو عسکری سرگرمیوں کے لیے بھرتی کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا تھا۔

یہ حملہ 2019 کے پلوامہ بم حملے کے بعد سے اس علاقے میں ہونے والا سب سے مہلک حملہ سمجھا جا رہا ہے۔ تازہ حملے نے انڈیا بھر کو شدید صدمہ پہنچایا ہے۔

ٹی آر ایف کی ابتدائی سرگرمی یکم اپریل 2020 سے کپواڑہ کے کیرن سیکٹر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب چار روزہ طویل مسلح تصادم تھا۔

ٹی آر ایف نے اس سے قبل بھی جموں و کشمیر میں شہریوں، سکیورٹی اہلکاروں اور سیاسی رہنماؤں پر متعدد حملے کیے ہیں۔ جون 2022 میں بھی اس نے مزاحمتی گروپ نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر ایک بینک منیجر کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم بعد میں اس نے اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی تھی۔ اس حملے میں دو افراد جان سے گئے تھے۔

اے ایف پی کے مطابق سال 2021 میں ٹی آر ایف نے پولیس اہلکاروں، اقلیتی ہندوؤں اور ایک خاتون سکھ ٹیچر سمیت دیگر ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان پر سکیورٹی فورسز کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل