انڈیا نے بدھ کو پہلگام واقعے میں 26 اموات کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے سمیت دیگر یکطرفہ اقدامات کیے ہیں جن پر غور کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا لیا۔
انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انڈس واٹر معاہدے کی معطلی کے علاوہ پاکستانیوں کو سارک ویزا معاہدے کے تحت انڈیا کا سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی اور جن کو ماضی میں اس معاہدے کے تحت ویزے جاری کیے جا چکے ہیں انہیں منسوخ کیا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت حاصل کردہ ویزے پر اگر کوئی پاکستانی اس وقت انڈیا میں موجود ہے تو ان کے پاس انڈیا چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہلی میں واقع پاکستانی سفارت خانے میں موجود ڈیفینس، ملٹری، نیوی اور فضائیہ کے ایڈوائزرز کو ’ناپسندیدہ شخصیات‘ قرار دیا گیا ہے، ان کے پاس انڈیا چھوڑنے کے لیے ایک ہفتہ ہے اور انڈیا بھی اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے اپنے ڈیفینس، ملٹری، نیوی اور فضائیہ کے ایڈوائزرز کو واپس بلا رہا ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ہائی کمیشنز میں ان عہدوں کو ختم تصویر کیا جاتا ہے جبکہ سروس ایڈوائزرز کے عملے کے پانچ ارکان کو بھی دونوں ہائی کمیشنز سے نکالا جائے گا۔
ہائی کمیشنز میں یکم مئی 2025 سے عملے کی تعداد 55 سے گھٹا کر 30 کی جا رہی ہے۔
انڈیا نے یہ اعلان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل، 2025 کو مسلح افراد کی فائرنگ سے 26 افراد کی اموات کے بعد کیا ہے جس کا الزام واقعے کے بعد پہلی بار انڈیا نے سرکاری سطح پر پاکستان پر عائد کیا گیا ہے۔
پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب
انڈیا کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صوتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستانی وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے 24 اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایکس پر اپنے پیغام میں بتایا کہ ’آج شام کے بھارتی حکومت کے بیان کا جواب دینے کے لیے جمعرات 24 اپریل 2025 کی صبح قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس طلب کیا گیا ہے۔‘
انڈین اعلان پر پاکستانی سیاستدان اور تجزیہ کاروں کی رائے
انڈیا کی جانب پاکستان پر پہلگام کے واقعے کا الزام عائد کرنے، سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور سفری پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’سفارت کاروں کی تعداد کم کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ویسے بھی انڈیا سے کسی بھی طرح کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔ ہاں اگر انڈیا جنگ یا پاکستان پر حملے کی طرف جاتا ہے تو پھر معاملہ سنجیدہ ہو سکتا ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدہ تو جنگ میں بھی معطل نہیں ہوتا، پانی تو آپ جنگ میں بھی بند نہیں ہوتا لیکن لگتا ہے انڈیا معاملہ انتہا کی طرف لے کر جا رہا ہے۔‘
سابق سفیر عبدالباسط جو انڈیا میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں انہوں نے کہا کہ ’چونکہ بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اس لیے انڈیا کو یہ سازش کرنا پڑی، اتنی انٹیلجنس اور آٹھ لاکھ فوج ’مقبوضہ کشمیر‘ میں رکھنے کے باوجود انڈیا کسی بھی حملے کو نہیں روک سکا تو یہ ان کی کہانی میں جھول ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ وہ (انڈیا) پاکستان پر حملہ کر سکتے ہیں لہذا ہمیں الرٹ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان پر حملہ کرنا انڈیا کی سیاست کا ایک حصہ ہے۔‘
پہلگام میں فائرنگ 26 افراد کی اموات
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں منگل 22 اپریل کو سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 26 افراد کی اموات ہوئی تھیں۔
انڈین حکام کا کہنا ہے کہ یہ کشمیر کے متنازع خطے میں کئی سالوں میں ہونے والا بدترین حملہ ہے۔
پاکستان کا اموات پر اظہار تشویش
پاکستان کی وزارت خارجہ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے میں ’سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔‘
سندھ طاس معاہدے کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے انتظام کے لیے 1960 میں تاریخی سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں سال فروری میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیر برائے آبی وسائل مصدق مسعود ملک نے انکشاف کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ دو سالوں سے سندھ طاس معاہدہ سے متعلق اہم ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور معلومات کا اشتراک رک گیا ہے اور اس بارے میں دونوں ملکوں کے درمیان دو سال سے کوئی اجلاس نہیں منعقد ہوا۔
پاکستان سندھ طاس منصوبے میں کسی بھی ترمیم کی مخالفت کرتا ہے اور اسے اپنی آبی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
1947 میں جب ہندوستان تقسیم ہوا تو پنجاب کے سارے دریا انڈیا سے ہو کر پاکستان آتے تھے۔
اس سے ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور بالآخر 1960 میں ایوب خان اور جواہر لعل نہرو کے درمیان عالمی بینک کے زیرِ اہتمام سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔
معاہدے کے تحت دریائے سندھ کے طاس کے دریاؤں کو انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔
تین مشرقی دریا (راوی، بیاس اور ستلج) انڈیا کو ملے جب کہ پاکستان کے حصے میں تین مغربی دریا (سندھ، جہلم اور چناب) آئے۔
حالیہ برسوں میں خاص طور پر قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت آنے کے بعد انڈیا کا استدلال ہے کہ یہ معاہدہ غیر مساوی ہے اور پاکستان کے حق میں ہے، کیوں کہ اس کے تحت پاکستان کو سندھ کے طاس کے آبی وسائل کے تقریباً 80 فیصد حصے تک کنٹرول مل گیا ہے اسی لیے وہ اس پر نظرِ ثانی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔