پہلگام واقعے کے بعد پاکستان انڈیا کشیدگی کے بارے میں پوری دنیا میں بات کی جا رہی ہے، دونوں طرف کی حکومتوں کے عہدیداران اس معاملے میں مسلسل بیانات دے رہے ہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق انڈین فورسز 24 سے 48 گھنٹوں میں فوجی کارروائی کر سکتی ہیں، ان تمام حالات کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چکوٹھی سیکٹر میں رہنے والے شہری کیسے دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں، انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا۔
لائن آف کنٹرول چکوٹھی سیکٹر کے حسن رضا، جو بیکری کا کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’جب بھی جنگ کے اعلانات ہوتے ہیں، لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو جاتا ہے، لوگ اپنے اپنے بنکروں میں چلے جاتے ہیں، ہم بازار میں شٹر ڈاؤن کر دیتے ہیں اور کاروبارِ زندگی معطل ہو جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایل او سی پر رہنے والے ایک اور شہری محمد منیر کا کہنا ہے ’ہم اس وقت بارڈر پر زندگی گزار رہے ہیں، یہ انڈیا کی بزدلانہ حرکتیں ہیں کہ وہ پاکستان کو ٹارگٹ کرنا چاہتا ہے۔ ہم بہادر، غیور اور دلیر قوم ہیں، ہم انڈیا کے ہر اقدام کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ وہ اگر پانی کا مسئلہ کھڑا کرے گا تو ہماری اس سے جنگ ہے۔ ہم جنگ سے نہیں گھبراتے، نہ جنگ کسی کا مسئلہ ہے۔ ہم پُرامن اور پُرسکون قوم ہیں، ہم امن چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ بات چیت سے خاموشی کے ساتھ اس مسئلے کو حل کریں۔ اگر وہ یہ مسئلہ حل نہیں کرتا تو ہماری اس سے جنگ ہے۔‘
کنٹرول لائن کے رہائشی احمد کاظمی کا کہنا ہے کہ ’ایسے حالات میں ہم راشن خرید کر ایڈوانس رکھتے ہیں تاکہ جنگ کے حالات میں ہمیں دوڑ دھوپ نہ کرنی پڑے۔ جب فائرنگ آتی ہے تو بازار بند ہوتا ہے۔ چکوٹھی سیکٹر میں فائرنگ سیدھی بازار میں آتی ہے۔ ہم یہیں پر ہوتے ہیں، ہم نے ابھی بھی راشن اور تمام چیزیں ذخیرہ کی ہوئی ہیں۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لائن آف کنٹرول کے علاقوں میں اس وقت حالات معمول کے مطابق ہیں، تاہم لوگ اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں، جس میں خوراک ذخیرہ کرنا، بنکرز کی صفائی اور تعمیر، اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان کی خرید و فروخت شامل ہے، جنہیں لوگ اپنے گھروں اور بنکرز میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔