ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار صدر منتخب ہونے سے نو دن قبل امریکی ارب پتی بزنس مین ایلون مسک نے میڈیسن سکوائر گارڈن کے سٹیج پر قدم رکھتے ہوئے چیختے چلاتے مداحوں سے کہا کہ ان کے ’پیسے ضائع کیے جا رہے ہیں۔‘
’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کی تحریر والی کیپ اور سیاہ لباس میں ملبوس مسک نے وعدہ کیا کہ وہ وفاقی اخراجات میں ’کم از کم دو ٹریلین ڈالر‘ کی کٹوتی کریں گے۔ یہ تخمینہ بظاہر انہوں نے اسی وقت اپنے دماغ میں لگایا ہو گا۔ انہوں نے اپنی نام نہاد محکمہ ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی‘ کے ذریعے حکومت کو عوام کی ’زندگیوں اور جیبوں‘ سے باہر نکالنے کا عزم ظاہر کیا۔
تقریباً چھ ماہ بعد جب وہ صدر کی انتخابی مہم پر کروڑوں ڈالر خرچ کر چکے تھے اور حکومتی اداروں میں اپنے وفادار تعینات کروا کر کئی افسران کو فارغ اور بجٹ میں کٹوتیاں کر چکے تھے، تو دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے اعلان کیا کہ وہ وائٹ ہاؤس سے ’نمایاں حد تک‘ کنارہ کشی اختیار کر کے اپنی کمپنی ٹیسلا پر توجہ مرکوز کریں گے۔
ٹرمپ کے صدارت کے 100ویں دن سے ایک ہفتہ قبل ارب پتی مسک نے اعلان کیا کہ وہ اب واشنگٹن ڈی سی میں کم وقت گزاریں گے شاید ’ہفتے میں ایک یا دو دن۔‘
ایلون مسک کی حیثیت ’خصوصی سرکاری عہدیدار‘ کی سی ہے جنہیں سال میں 130 دن کام کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ اوقات کار کیلنڈر کے مطابق نہیں چلتے اور مسک انتظامیہ کا حصہ رہیں گے، چاہے وہ وائٹ ہاؤس ہو یا ٹرمپ کا فلوریڈا کا پرتعش محل مارا لاگو۔
انتظامیہ کے مطابق ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی کفایت شعاری کی جنگ ابھی ختم نہیں ہو رہی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں ایلون مسک کا کردار جتنا غیر متعلقہ تھا، اتنا ہی تباہ کن بھیور غالباً یہی اصل مقصد شروع سے تھا۔
’پبلک سٹیزن‘ نامی صارف حقوق کی تنظیم کے شریک ڈائریکٹر رابرٹ وائزمین نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ایلون مسک کا حکومت میں شامل ہونا غیر معمولی ہے لیکن کسی بھی غیر صدارتی شخصیت نے حکومت کو اتنا بے مقصد اور تباہ کن نقصان نہیں پہنچایا جتنا مسک نے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’وہ تجارتی مقاصد رکھتے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ ایک آمرانہ تباہ کاری کے منصوبے میں مصروف ہیں، جس کا کوئی واضح مقصد نہیں مگر مہلک اثر ضرور ہے۔‘
انتخابی مہم کے دوران مسک نے امریکیوں کے لیے ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے تحت ’مشکلات‘ کی پیش گوئی کی تھی۔ مسک اور اس کے محکمے نے کئی سرکاری پروگرام بند کیے، جیسے غریب ملکوں کی امداد، عام لوگوں کے حقوق کا تحفظ، لائبریریوں اور صحت کی تحقیق کے لیے پیسے، اور بے گھر افراد کی مدد۔ ساتھ ہی، وہ امریکیوں کی ذاتی معلومات بھی اکٹھی کرتے رہے۔
مسک کا اندازہ تھا کہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی مالی سال کے اختتام یعنی ستمبر کے آخر تک وفاقی بجٹ سے ایک ٹریلین ڈالر کا بوجھ کم کر دے گا۔ وائٹ ہاؤس نے اب تک کے ’تخمینی بچت‘ یعنی تقریباً 150 ارب ڈالر کا جشن منایا جو مقررہ ہدف سے 85 فیصد کم ہے۔
اس پرعوامی ردعمل تیز اور شدید تھا جس کا نتیجہ سال کی پہلی سہ ماہی میں ٹیسلا کے منافع میں 71 فیصد کمی سے نکلا۔
اس نقصان کے بعد 22 اپریل کو ٹیسلا شیئر ہولڈرز سے خطاب کرتے ہوئے مسک نے کہا: ’اگر امریکہ کی کشتی ڈوبی، تو ہم سب ساتھ ڈوبیں گے، ٹیسلا بھی اور باقی سب بھی۔‘
370 ارب ڈالر سے زیادہ کے ذاتی اثاثوں کے مالک اور انسانوں کو دوسرے سیاروں پر بسانے کے خواہاں ایلون مسک نے ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں اقتصادی بحران اور مارکیٹ کریش کی پیش گوئی کی تھی اور اس کا خیرمقدم بھی کیا۔
ٹرمپ اور مسک دونوں نے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کو ’سرکاری فضول خرچی، دھوکہ دہی اور بدعنوانی‘ کا خاتمہ کرنے والی ٹیکنالوجی سپورٹ ٹیم قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ ادارہ نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔ وفاقی اداروں کے اندر ملازمین اپنا کام کر رہے ہیں جب کہ مسک بطور مشیر کام کرتے ہیں۔
ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کا تصور سب سے پہلے 27 اکتوبر کو میڈیسن سکوائر گارڈن میں ٹرمپ کی ریلی میں پیش کیا گیا، جہاں مسک سٹیج پر موجود تھے۔
ٹرمپ کے اس وقت کے مہم مشیر اور موجودہ کامرس سیکرٹری ہاورڈ لٹنک نے مسک سے پوچھا کہ وہ بجٹ میں کتنی رقم کم کر سکتے ہیں جس پر مسک نے جواب دیا ’کم از کم دو ٹریلین ڈالر۔‘
بعد ازاں لٹنک نے ’آل-ان‘ پوڈکاسٹ میں انکشاف کیا کہ سٹیج پر آنے سے قبل وہ اور مسک ایک ٹریلین ڈالر کے ہدف پر متفق ہوئے تھے لیکن سٹیج پر مسک نے اس سے دوگنا یعنی دو ٹریلین کا دعویٰ کر دیا۔
ان کے بقول: ’میں وہاں بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے کہا کہ 'چلو ٹھیک ہے پھر۔' یا کچھ ایسا ہی۔ اور میں کیا ہی کر سکتا تھا۔‘
دنیا بھر کے ماہرین معیشت اور تھنک ٹینک نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے افراط زر، خسارہ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور وہ بجٹ پر چھری چلانے پر تیار تھے جو مسک کے مطابق کھربوں میں ضائع ہو رہا ہے۔
ٹرمپ کی مکمل حمایت کے ساتھ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی حکومتی اداروں پر بلا روک ٹوک چھا گیا اور اس نظام کو تہس نہس کر دیا جس سے مسک نفرت کرتے ہیں۔ ان اقدامات پر شدید عوامی اعتراضات اور درجنوں مقدمات دائر ہوئے، جن میں سوال اٹھایا گیا کہ آیا ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی اور مسک کی سرگرمیاں آئینی ہیں بھی یا نہیں؟
ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی نے ’فضول اخراجات‘ ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن اکثر فیصلے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کیے گئے۔ ہزاروں وفاقی ملازمین کو فارغ یا معطل کیا گیا۔ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) تقریباً بند ہو چکا ہے۔
مسک کے محکمے کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے اور سٹیٹ ڈیموکریسی ڈیفینڈرز فنڈ نامی تنظیم کے چیئرمین نورم آئزن نے اس بار میں کہا: ’چاہے مسک کہیں جائیں یا نہ جائیں، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ ان کے اقدامات ناکام رہے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مسک کی سخت پالیسیوں نے حکومت کے کاموں میں بے ترتیبی پیدا کی، جس سے امریکیوں کو فائدہ نہیں ہوا اور ان کے خلاف عدلیہ میں فیصلے بھی آئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ عوام میں مقبول نہیں رہے۔‘
مارچ میں مسک نے وسکونسن کی ریاستی سپریم کورٹ کے انتخاب میں ایک قدامت پسند امیدوار پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جسے انہوں نے ’انسانیت کی تقدیر‘ سے تعبیر کیا مگر وہ امیدوار ہار گیا۔
آئزن کے مطابق یہ انتخاب مسک کی سیاسی طاقت کا پہلا بڑا امتحان تھا جسے ناقدین نے ’عوام بمقابلہ مسک‘ کا ریفرنڈم قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسک کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ عوامی سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اکثریت ان کے بارے میں منفی رائے رکھتی ہے اور ان کی ٹیسلا پراپرٹیز کے باہر ملک بھر میں احتجاج ہوا جن کے بارے میں مسک کا کہنا ہے کہ اسے سیاسی مخالفین نے فنڈ کیا ہے۔
ٹرمپ کا محکمہ انصاف ان مظاہروں کے دوران ٹیسلا کی تنصیبات میں توڑ پھوٹ اور آتش زدگی کی دہشت گردی کے واقعات کے طور پر تحقیقات رہا ہے۔
مسک کی واشنگٹن سے علیحدگی کی خبریں کئی ہفتوں سے گردش میں تھیں مگر اس کا وقت کئی اعلیٰ حکام سے جھگڑوں کے بعد آیا۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر ٹرانسپورٹیشن شان ڈفی اور اقتصادی مشیر پیٹر ناورو کے ساتھ تنازعات کی اطلاعات بھی ہیں۔
حال ہی میں یہ اختلافات صدر کے سامنے بھی آئے جب مسک کی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی ٹیم نے انٹرنل ریونیو سروس کے لیے گیری شیپلی کو عبوری کمشنر مقرر کروایا۔ یہ فیصلہ وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ کے اختیار سے متصادم تھا، جو پہلے ہی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی مداخلت سے ناخوش تھے۔ بعد میں مسک نے ایکس پر بیسنٹ کو اَن فالو کر دیا۔
22 اپریل کو ٹیسلا کی ارننگ کال میں مسک نے مظاہرین کو جھوٹا الزام دیا کہ وہ بیرونی گروہوں سے فنڈ حاصل کر رہے ہیں اور انہیں ضائع ہونے والی رقم کے وصول کنندگان قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کے ساتھ اپنی وابستگی جاری رکھیں گے ’بس یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ہم نے جو فضول خرچی اور دھوکہ دہی روکی ہے، وہ دوبارہ نہ لوٹ آئے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’تو میرا خیال ہے کہ جب تک صدر چاہیں گے اور جب تک یہ فائدہ مند ہوگا، میں حکومتی معاملات پر ہفتے میں ایک یا دو دن کام کرتا رہوں گا۔‘
پبلک سٹیزن کے وائس مین نے کہا ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کے ناقدین پرامید ہیں کہ کہ عدالتیں اسے کالعدم قرار سے دیں گی لیکن مسک کے حکومتی کام کے خلاف کوئی بھی فیصلہ ایسی حکومت کے سامنے آئے گا جو عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی اور مسک کے حکومت کے نظام کو تباہ کرنے کے عزم کو سمجھتی ہے۔‘
’ہم دراصل ایک ٹرمپ کے بعد کے دور کی طرف دیکھ رہے ہیں اور فی الحال کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ایک بات تو طے ہے: کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس سے سب کچھ دوبارہ ویسا ہو جائے جیسا پہلے تھا۔‘
© The Independent