برطانیہ نے منگل کو لندن میں انڈین اور پاکستانی برادریوں سے کشیدگی کم رکھنے کی اپیل کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ اپیل ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب قانون سازوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پہلگام حملے کے بعد دونوں برادریوں کے درمیان کشیدگی برطانیہ میں بھی پھیل سکتی ہے۔
انڈیا اور پاکستان نے 22 اپریل کو کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس حملے میں 26 افراد مارے گئے تھے۔
نئی دہلی نے اس حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا ہے جبکہ پاکستان نے کسی بھی کردار کی تردید کرتے ہوئے غیر جانب دار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی انڈین اور پاکستانی برادریوں میں سے ایک کا گھر ہے۔
برطانوی وزارتِ خارجہ کے وزیر ہیماش فالکنر نے پارلیمنٹ میں کہا، ’یہ معاملات طویل عرصے سے برطانوی سڑکوں پر جوش و جذبے سے زیر بحث آتے رہے ہیں، اور ہم تمام فریقوں، تمام کمیونٹی رہنماؤں اور تمام متعلقہ افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خطے میں جاری کشیدگی کے دوران تحمل اور امن کی اپیل کریں۔‘
جب فالکنر نے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر ایک فوری سوال کا جواب دینے کے لیے شرکت کی تو ارکانِ پارلیمنٹ نے ان میڈیا رپورٹس پر تشویش ظاہر کی جن میں لندن میں انڈیا اور پاکستان کے ہائی کمشنز کے باہر کشیدہ مظاہروں کی خبریں سامنے آئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلگام حملے کے بعد برطانیہ نے اپنی سفری ہدایات کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو جموں و کشمیر کے خطے کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، البتہ کچھ مخصوص علاقوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
فالکنر نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ برطانوی حکومت کا دیرینہ مؤقف ہے کہ انڈیا اور پاکستان ہی کشمیر کے مسئلے کا ایسا حل نکالنے کے ذمہ دار ہیں جو کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتا ہو۔
گوتریس کا شہباز شریف اور جے شنکر کو فون
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے منگل کو پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور انڈین وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تاکہ دونوں ممالک پر زور دیا جا سکے کہ وہ کشیدگی کو کم کریں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفان دوجارک نے بتایا ’گوتریس نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور زور دیا کہ ایسی کسی بھی محاذ آرائی سے گریز کیا جائے جو تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
’انہوں نے کشیدگی کے خاتمے کی کوششوں میں مدد کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش بھی کی۔‘