مارچ میں تعلیمی سال کے آغاز سے ہی افغانستان میں لڑکوں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ پگڑی اور لمبے کرتے پر مشتمل نیا یونیفارم پہنیں، جو طالبان حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے نظام سے مطابقت رکھتے ہیں۔
طالبان کی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد ڈسپلن کو مضبوط بنانا، معاشرتی عدم مساوات کو چھپانا اور ایسا لباس فروغ دینا ہے جو ان کے مطابق ’اسلامی اقدار‘ کی نمائندگی کرتا ہو۔
وزارت کی ہدایت میں کہا گیا: ’اسلام نے لباس پر توجہ دے کر شرم و حیا اور وقار کا معیار محفوظ اور مضبوط کیا ہے۔ شریعت کا لباس مرد و عورت دونوں کی مسلم شناخت کا تعین کرتا ہے۔
’شریعت کا لباس فرد کے وقار کو محفوظ رکھنے اور معاشرے کو اخلاقی تنزلی سے بچانے کا ذریعہ ہے۔‘
طالبان حکام کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے شلوار قمیض اور پگڑی جو کہ اس خطے کا روایتی لباس ہے تعلیمی یا پیشہ ورانہ اداروں میں عام نہیں تھا۔
طالبان کی واپسی کے بعد کابل اور دیگر علاقوں کی سڑکوں پر یکسانیت آ چکی ہے، جہاں زیادہ تر مرد یک رنگ ڈھیلی شلوار اور لمبا کرتا پہننے لگے ہیں۔
جو لباس پہلے صرف دینی مدارس تک محدود تھا، اب وہ شلوار قمیض اور پگڑی یا ٹوپی تمام طلبہ کے لیے چاہے وہ سرکاری سکول میں ہوں یا نجی — لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
لڑکیوں کے لیے تو پہلے ہی کم عمری سے یونیفارم پہننا ضروری تھا۔ عام طور پر ایک لمبی کالی قمیض، اس کے ساتھ میچنگ شلوار اور سفید سکارف لیکن اب وہ پرائمری کے بعد دینی اداروں کے علاوہ کہیں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔
لڑکوں کے لیے تقریباً 15 سال کی عمر تک ہلکی نیلی شلوار، قمیض اور ٹوپی لازمی ہے۔ اس کے بعد انہیں سفید لباس اور پگڑی پہننا ہوگی۔
یہ ضابطہ طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر نافذ کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس پر عمل درآمد میں وقت لگا اور اب بھی یہ ملک کے مختلف حصوں میں غیر مساوی طور پر لاگو ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مغربی ہرات کے طالب علم نصیر احمد نے بتایا کہ تعلیمی سال کے آغاز میں بہت کم طلبہ نے نیا یونیفارم پہنا، لیکن اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔
13 سالہ طالب علم نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارے اساتذہ نے ہمیں کہا ہے کہ بغیر یونیفارم اور ٹوپی کے سکول نہ آئیں۔ اگر ہمارے پاس یونیفارم اور ٹوپی نہ ہو تو ہمیں کلاس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘
17 سالہ قاسم نے کہا، ’میں نے اپنے کئی دوستوں کو دیکھا جنہیں صرف اس وجہ سے سکول سے واپس بھیج دیا گیا کہ ان کے سر پر پگڑی نہیں تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ یعنی ’نیکی کے فروغ اور برائی سے روکنے‘ والے محکمے کی اخلاقی پولیس سکولوں میں آتی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ضوابط پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔
طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی قندھار میں کئی طالب علموں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے نئے لباس سے خوش ہیں۔
محمود طرزی سکول کے طالب علم محمد ولی نے کہا، ’مجھے نبیؐ کا لباس پہن کر بہت خوشی ہوتی ہے۔‘
17 سالہ طالبعلم نے کہا، ’یہ ہمیں سڑک پر موجود دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔‘
جبکہ دارالحکومت کابل میں کچھ طالب علم سکول میں پگڑی پہن کر آتے ہیں، لیکن جیسے ہی سکول سے باہر نکلتے ہیں، وہ اسے اپنے بیگ میں رکھ دیتے ہیں۔
اساتذہ اور سکول پرنسپلز کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے سوٹ، ٹائی یا معمول کے کپڑوں کو ترک کرکے شلوار قمیض اور سیاہ پگڑی پہنیں، تاہم ان میں سے بعض اس فیصلے سے متفق نہیں۔
کابل کے ایک سکول کے پرنسپل نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا: ’آج سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اب ڈاکٹر نہیں لگتا اور ایک باورچی، باورچی نہیں لگتا۔‘
اگرچہ پرنسپل نے تسلیم کیا کہ یونیفارم سے ڈسپلن پیدا ہوتا ہے، لیکن انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً چار سال پہلے ہی اپنا سوٹ اور ٹائی چھوڑ چکے تھے تاکہ کسی مشکل سے بچ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ خاندانوں کے لیے اوسطاً 1,000 افغانی (14 ڈالر) فی یونیفارم کا خرچ ایک بوجھ ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں اقوام متحدہ کے مطابق 85 فیصد آبادی روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارا کرتی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا، ’اگر کسی خاندان کے پانچ یا چھے بچے ہوں تو وہ یہ خرچ کیسے برداشت کریں گے؟‘
طلبہ اب اپنا نیا یونیفارم ان سکولوں میں پہنتے ہیں جو اکثر خستہ حال ہوتے ہیں اور جہاں وسائل نہایت محدود ہیں۔ دور دراز علاقوں میں تو بعض اوقات درخت کے سائے میں کلاسز ہوتی ہیں۔
کابل کے اس پرنسپل کا کہنا تھا کہ شروع میں وہ یونیفارم نہ پہننے والے طلبہ کو سزا نہیں دیتے تھے، لیکن اب وزارتِ تعلیم کے حکام ہفتے میں دو سے تین بار سکول آتے ہیں تاکہ چیک کریں کہ طلبہ ضوابط پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا، ’افغانستان میں لوگوں کے پاس کوئی اختیار نہیں وہ صرف اطاعت کرتے ہیں اور شکایت نہیں کر سکتے۔‘