پاکستان میں دوسرے طبقوں کی طرح طلبہ میں بھی پچھلے کئی سالوں سے مختلف پابندیوں کے حوالے سے بےچینی پھیلی ہوئی ہے۔
ماضی میں عموماً اپنے مطالبات منوانے کے لیے وہ اپنے کالجوں یا جامعات کے کیمپس استعمال کرتے تھے اور اپنے مطالبات جو عام طور پر ان کی تعلیم سے متعلق ہوتے تھے، منوانے کے لیے ہڑتالیں بھی کرتے تھے۔ چونکہ ملک زیادہ تر آمریت کے چنگل میں پھنسا رہا، ہمارے تعلیمی ادارے سیاسی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ آمریت اور قدرے جمہوریت کے دور میں بھی جب سیاسی مخالفین پر حکومتوں کے ظلم و ستم جاری رہے اور سیاسی جماعتوں کے لیے سڑکوں پر زندگی اجیرن کر دی گئی تو یہی کیمپس ایک طرح کی سیاسی جدوجہد کا متبادل مرکز بنے۔ درس گاہوں نے جمہوریت کی بحالی اور سیاسی حقوق کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد ان ہی تعلیمی اداروں سے شروع ہوئی جو آخرکار اس آمریت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ اس تحریک میں طالب علم رہنماؤں نے کلیدی کردار ادا کیا اور حسن ناصر، معراج محمد خان، عثمان کینیڈی اور دوسرے رہنما اپنی عملی زندگی میں سیاسی میدان میں ابھر کر سامنے آئے۔ بعد کی تحریکوں میں جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ جیسے رہنما بھی سامنے آئے۔ الطاف حسین بھی ایک طالب علم رہنما کے طور پر ابھرے اور اپنی تحریک کی ابتدا جامعات اور کالجز کے کیمپس سے شروع کی۔ گو انہیں اس تحریک میں حساس اداروں کی درپردہ حمایت بھی حاصل رہی لیکن اس کے باوجود یہ طلبہ کی ہی ایک تحریک مانی جاتی تھی۔
گذشتہ صدی میں 60 کی دہائی کے دوران دنیا بھر میں طالب علموں نے کامیاب سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا اور اپنی حکومتوں کو پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ اس میں فرانس میں سیاسی تبدیلی اور امریکہ میں ویتنام جنگ کے خلاف احتجاج قابل ذکر ہیں۔
پاکستان کے آمر مطلق ضیا الحق کا تاریک دور باقی قومی شعبوں کی طرح جامعات کے لیے بھی ایک سیاہ باب لے کر آیا۔ اس دور میں مختلف جامعات اور کالجز پر پولیس کے دھاوے بولے جاتے تھے، جامعات کو بند کر دیا جاتا اور طلبہ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا جاتا۔ وزیر اعظم بھٹو کے تختہ دار پر چڑھ جانے کے بعد طلبہ کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے جامعات کو کئی مہینوں کے لیے بند کیا گیا۔
بھٹو کے حامی طلبہ کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ انہیں جامعات میں مخالف طالب علم تنظیموں کے ذریعے مسلسل تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ کئی طلبہ کو جامعات سے نکالا بھی گیا۔ اس وقت کے کئی طلبہ کو دیار غیر میں بھی پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا۔ درس گاہوں کو بار بار بند کرنے کی وجہ سے طلبہ کا بےپناہ تعلیمی نقصان بھی ہوا اور دو سال میں مکمل ہونے والی ڈگریاں تین سالوں میں تکمیل کو پہنچیں۔ نتیجتاً کثیر تعداد میں طلبہ اور طالبات ملازمت کے زریں مواقع سے محروم رہ گئے۔
طلبہ کی سیاسی جدوجہد اور بیداری کو ختم کرنے اور اپنے اقتدار کو چیلنج کرنے والی طاقتوں کو دبانے کے لیے ضیا الحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا جو اب تک قائم ہے۔ اس پابندی نے جامعات میں ایک نئے لیکن منفی رجحان کو پروان چڑھایا اور جامعات میں طلبہ مختلف نسلی اور لسانی گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ جامعات میں اب آپ کو طلبہ یونینز کی بجائے مختلف نسلی اور لسانی گروپوں کے عہدے دار نظر آتے ہیں۔ یہ گروپ آپس میں ہر وقت برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ کئی جامعات میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر خونی تصادم بھی ہو چکے ہیں۔
یہ تقسیم اس قدر وسیع ہے کہ اب ہاسٹلز بھی انہی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے ہیں۔ ایک گروپ کا فرد دوسرے گروپ کے ہوسٹل میں قیام سے گبھراتا ہے۔ یہ سلسلہ قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے طلبہ کو تقسیم کی طرف لے جا رہا ہے۔ سابق وقتوں کی طلبہ تنظیموں میں ہر علاقے، ہر نسل اور ہر لسانی گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگ نظریاتی اصولوں یا قومی مسائل پر ہم آہنگی کی بنیاد پر شامل ہوتے تھے لیکن اب یہ متحد کرنے والے عوامل قریباً ناپید ہو چکے ہیں۔
اب جامعات میں داخلہ سے پہلے آپ کو ایک حلف نامہ داخل کرانا پڑتا ہے جس کے مطابق آپ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ جامعات میں طلبہ سے متعلق فیصلوں، مثلاً فیسوں میں اضافہ، میں انہیں کسی نمائندگی کا حق نہیں رہا۔ طلبہ میں مختلف وجوہات کی بنا پر ایذا رسانی کا عمل بلا رکاوٹ جاری ہے مگر اس پر کوئی متحد آواز نہیں اٹھائی جا سکتی کیونکہ آواز اٹھانے کی صورت میں آپ کو ادارے سے باآسانی نکالا بھی جاسکتا ہے۔ اسی طرح دور دراز اور نسبتاً کم ترقی یافتہ علاقوں سے آنے والے طالب علموں سے امتیازی سلوک بھی روا رکھا جا رہا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں کا اس نہج پر پہنچ جانا انتہائی تشویش ناک بات ہے لیکن موجودہ حالات میں ناروا پابندیوں کے باعث اس کا مداوا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے۔
اس گھٹن کےماحول میں پچھلے کچھ سالوں میں نہ صرف جامعات میں بلکہ قومی سطح پر بھی اضافہ نظر آیا ہے۔ ناروا پابندیوں کے اس دور میں اظہار خیال پر بے تحاشا بندشیں لگائی جا چکی ہیں۔ اخبارات میں کالم چھپنے نہیں دیئے جاتے، نیوز چینلز کو سیلف سنسرشپ پر مجبور کیا جا رہا ہے، لوگوں کو سائبر دہشت گردی کے نام پر زباں بندی پر مجبور کیا جا رہا ہے اور طلبہ و طالبات کو حکومت مخالف سرگرمیوں کے بے بنیاد الزامات پر جامعات سے اٹھایا جا رہا ہے۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں پچھلے ماہ لاہور میں فیض فیسٹیول کے موقع پر چند طلبہ کا پُرزور اور دلوں کو چھو جانے والا احتجاج ایک بہار کے جھونکے کی طرح آیا ہے اور ان کا نعرہ ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ زبان زد عام ہو گیا۔ لیکن یہاں پر بھی فکر کی بات یہ ہے کہ مرکزی ذرائع ابلاغ بشمول بڑے ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اس بےضرر احتجاج کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور اس کی خبریں پورے پاکستان میں صرف سوشل میڈیا پر ہی دیکھنے میں آئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی حلقوں اور متعلقہ اداروں نے اس احتجاج کو سمجھنے اور اس کا حل نکالنے کی بجائے اس کے سرکردہ رہنماؤں کی ساکھ پر سوالات اٹھانے شروع کر دیئے۔ ایجنسیوں کے پسندیدہ القابات جیسے ’غیر محب وطن، ملک دشمن، دشمن کے ایجنٹ‘ وغیرہ فوراً میدان میں نکل آئے اور ان طلبہ رہنماؤں کو پہلے سے ہی بدنام کی گئی جماعتوں مثلاً پشتون تحفظ موومنٹ سے جوڑا جانے لگا حالانکہ یہ احتجاج پنجاب کی جامعات سے اٹھا اور اسی صوبے کے طالب علم اس کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ محض اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں۔ اب ان طالب علم رہنماؤں کے خلاف مقدمات بھی قائم کر دیئے گئے ہیں۔
کیونکہ موجودہ حکومت نوجوانوں کے ووٹوں سے برسرِ اقتدار آئی ہے اور نوجوان اس کی بڑی طاقت رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ ان طالب علموں کے مطالبات پر توجہ دے۔ اسی حکومت کے دعوؤں کے مطابق انہوں نے نوجوانوں میں سیاسی شعور پیدا کیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ جامعات میں بھی انہیں سیاسی شعور کے مطابق حقوق اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
معاشرے کی اصلاح کے بڑے بڑے نظریات ہمیشہ تعلیمی اداروں میں ہی پروان چڑھے ہیں اور عظیم تحاریک بھی یہیں سے شروع ہوئی ہیں۔ انہیں پنپنے کےلیے مناسب اور صحت مند ماحول مہیا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس سے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کامیابی ملے گی بلکہ ملک میں سیاسی رواداری کو بھی فروغ ملے گا جو کہ اس وقت ملک میں تقریباً ناپید ہوچکی ہے اور شاید اسی وجہ سے پچھلے 30 سالوں میں پاکستانی تعلیمی ادارے اعلیٰ درجے کے رہنما پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان میں تمام بڑی مزاحمتی تحریکیں طلبہ کی شمولیت سے ہی کامیاب ہوئی ہیں اس لیے جب طالب علم ’سرفروشی اور بازوئے قاتل‘ کی بات کرنے لگیں تو حکومت کو ان کے مطالبات پر گہری اور سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ کے مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو ملک میں کسی گھمبیر سیاسی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہمارے سر پر منڈلاتا رہے گا۔