یہ حکومت بظاہر لُک بِزی ڈُو نَتھنگ کی ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب وزیر اعظم صاحب مہنگائی کے خلاف اور عوام کو ریلیف کے حق میں اجلاس نہ کرتے ہوں۔ سارے وزیر مشیر معاون مددگار، چاہے کام کرنے والے ہوں یا بے کار، سب سرجوڑ بیٹھک لگاتے ہیں کہ منہ زور مہنگائی کو لگام کیسے دی جائے۔ گھنٹوں کی بھوکی پیاسی عرق ریزی کے (کیونکہ حکومت جو کفایت شعاری کی ہے) بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ تو اب عوام کو ازبر ہوگیا ہے۔
مزے کی بات ہے کہ دال روٹی کی قیمت عوام کو اتنے اچھے سے یاد نہیں رہتی جتنے اچھے سے ان اجلاسوں کے بعد جاری ہونے والے بیانات عوام کو رٹ گئے ہیں (کیونکہ دال روٹی کی تو قیمت ہی ہر روز بدلتی رہتی ہے مگر حکومتی بیانات نہیں بدلتے)۔ بہر حال بات ہو رہی تھی عوامی مسائل اور مہنگائی کے حل کے لیے ہونے والے حکومتی اجلاسوں کی جن کا نتیجہ ہر بار یہی نکلتا ہے کہ کچھ روایتی جملے وزیر اعظم سے منسوب کرکے میڈیا کو جاری کر دیے جاتے ہیں مثلاً:
٭ وزیراعظم نے بڑھتی مہنگائی کا سخت نوٹس لے لیا
٭ عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے وزیر اعظم کی ہر ممکن اقدامات کی ہدایت
٭ حکومت عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے مکمل کوشاں ہے، وزیراعظم
٭ روزمرہ اشیا کی قیمتیں کنٹرول کی جائیں، وزیر اعظم
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وغیرہ وغیرہ..... اور آج کل تو نئی شدت کے ساتھ پرانا تڑکا بھی حکومتی بیانات کی زینت ہے کہ ملک میں ہر برائی ہر خامی ہر آفت ہر مشکل کا وبال گذشتہ حکومتوں پر ڈال دیا جائے۔ سو ان روایتی بیانات میں دو تین جملے ماضی کی ’چور حکومتوں‘ پر تبرکاً بھی شامل کر دیے جاتے ہیں تاکہ عوام کو یقین ہو جائے کہ حکومت ان کے مسائل کے حل کے لیے اور مہنگائی میں کمی کے لیے کس قدر سنجیدہ اور کوشاں ہے لیکن گذشتہ حکومتوں کا آسیب کسی طور جان ہی نہیں چھوڑتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو اب ان روایتی بیانات پر نہ یقین رہا ہے نہ اعتبار۔ ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کا منجن بھی اب اپنی تاثیر کھو بیٹھا ہے۔ آپ کسی بھی دکان پر چلے جائیں کسی بھی بازار میں کسی پیٹرول پمپ پر کسی ہوٹل میں یا راہ چلتے کسی بھی شخص سے پوچھ لیں کہ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سے اور خاص کر آج کل کے حالات میں اس کا گزارہ کیسے ہو رہا ہے آپ کو تکلیف بھری داستان ہی سننے کو ملے گی۔ کیا کاروباری شخص کیا نوکری پیشہ انسان کیا دیہاڑی دار مزدور سب ہی اس مہنگائی کی سونامی کے ہاتھوں تنگ اور پریشان ہیں۔
ستم ظریفی ہے کہ جس وقت وزیر اعظم مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا اجلاس کر رہے تھے عین اسی وقت سٹیٹ بینک کے گورنر عوام کو خبردار کر رہے تھے کہ آئندہ سال تک مہنگائی سات سے نو فیصد ہی رہے گی اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں کا نیا بم گرایا گیا ہے۔ اسی وقت دیگر حکومتی ادارے بھی مہنگائی کی شرح کی ہفتہ وار رپورٹیں جاری کر رہے تھے جن کے مطابق اِس ہفتے میں عوام کے کھانے پینے کی چیزوں یعنی دالیں، آٹا، چینی، سبزی، گوشت وغیرہ میں اضافہ ہوا ہے۔
اب اسے حکومتی تضاد یا دو رخی پالیسی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ ایک طرف مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے اجلاس اور اعلانات و بیانات اور دوسری طرف حقائق بالکل اس کے برعکس۔
آپ سب نے وہ مشہور قصّہ تو سن ہی رکھا ہوگا کہ کسی جنگل میں ایک بندر کو اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر بادشاہت مل گئی اور جب بھی کوئی جانور اس بندر بادشاہ کے پاس اپنی فریاد لے کر آتا وہ ا یک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر چھلانگیں لگانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک چلتا رہتا اور جب فریادی تنگ آکر دہائی دیتا کہ بادشاہ سلامت میرا مسئلہ حل کروا دیں تو بندر بادشاہ اک ادائے بے نیازی سے جواب دیتے کہ تمہارا مسئلہ ہی تو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تم میری آنیاں جانیاں تو دیکھو۔
لُک بِزی ڈُو نَتھنگ۔