خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں جمعرات کو چار سالہ لاپتہ بچی حریم فاطمہ کی لاش ایک نالے سے برآمد ہونے کے بعد پولیس نے 30 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔
بچی کے دادا فرہاد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حریم کچھ دیر کے لیے گھر سے نکلی پھر لاپتہ ہوگئی۔ ’ہم نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو آگاہ کرنے کے علاوہ ایف آئی آر درج کروا دی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، پولیس کارروائی کر رہی ہے لیکن ابھی تک نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا: ’ہمارا تعلق کرک سے ہے لہذٰا بچی کا جنازہ اپنے آبائی گاؤں کرک میں ادا کر دیا گیا۔‘
متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او افضل اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حریم کے دادا نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابتدائی رپورٹ کے مطابق بچی بدھ کی دوپہر دو بجے اپنے گھر خٹک کالونی کوہاٹ سے نکلی لیکن شام تک گھر واپس نہیں آئی۔
اس کے گھر والے ساری رات اسے ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملی، اگلی صبح جمعرات کو اس کی لاش ایک نالے سے ملی۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہی ہے اور اب تک 30 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن سے ابتدائی تفتیش جاری ہے جبکہ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔
ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایک ذمہ دار افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچی کے پوسٹ مارٹم میں تاخیر پر دو لیڈی ڈاکٹرز کو معطل کردیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈیوٹی میں تبدیلی کو تاخیر کی وجہ قرار دیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی ر پورٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئی لیکن بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے اور وہ مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنی ہے۔
حریم کے ورثا نے ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے سامنے باقاعدہ احتجاج کیا تھا جس پر محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے ان کے گھر جا کر تعزیت کی اور ملزمان کو جلد ازجلد گرفتار کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
جمعیت علمائے اسلام کے ضلعی رہنما مولانا شاہ عبدالعزیز مجاہد نے حریم کے قاتلوں کو گرفتار کر کے انہیں سرعام سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔