صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مالاکنڈ کا ایک چھوٹا سا گاؤں ’تھانہ‘ اپنی تاریخ اور 72 فیصد شرح خواندگی کی وجہ سے تو ممتاز حیثیت رکھتا ہی ہے، لیکن یہاں کے لوگوں میں ادب اور دوسرے فنون کا شغف بھی پایا جاتا ہے اور علاقے کے کئی فنکاروں نے قومی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے۔
تھانہ کے موسیقار اور شاعر امجد شہزاد گذشتہ 20 برس سے ’ہنر کور‘ کے نام سے ایک میوزک اکیڈمی چلا رہے ہیں، جہاں ہرعمر کے لوگوں، بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیوں کو موسیقی اور اس کے آلات کی تربیت دی جاتی ہے۔
امجد کا کہنا ہے کہ موسیقی کا شوق انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملا جو ان کے لیے پرانے گانوں اور غزلوں کی کیسٹیں لاتے تھے جبکہ شاعری انہوں نے اپنی والدہ کی وجہ سے شروع کی۔
امجد بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ خود نہیں پڑھ سکتی تھیں، لیکن وہ انہیں کہتی تھیں کہ رحمٰن بابا کے دیوان، مذہبی کتابیں یا شاعری پڑھا کرو۔
انہوں نے بتایا: ’ہنر کور ایک آزاد ادارہ ہے جہاں موسیقی یا دوسرے فنون سیکھنے کی کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ یہاں پر موسیقی کے پروگرام، مشاعرے، آرٹ کی نمائشیں، بحث مباحثے اور ہر طرح کی مثبت سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔‘
امجد کے مطابق ہنر کور کے طالب علموں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں مگر ایک گاؤں ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لڑکے خود اکیڈمی آتے ہیں جبکہ لڑکیاں مختلف جگہوں سے (مثلاً پشاور، بونیر، دیر وغیرہ) سے آن لائن کلاسز لیتی ہیں۔
اکیڈمی میں کلاسز کے طریقے کار کے متعلق انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر کلاسز اکیڈمی کے اندر ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھار کھلی فضا مثلاً پہاڑوں پر اور دریا کے کنارے بھی کلاسز ہوتی ہیں۔
ان کے خیال میں چونکہ پختون معاشرے میں موسیقی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لہٰذا اس وجہ سے اکیڈمی میں دوسرے فنون کے مقابلے میں موسیقی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے کیونکہ یہ ایک بہت ہی پراثر فن ہے۔
امجد نے بتایا: ’پوری پختون بیلٹ دہشت گردی کے نرغے میں ہے۔ ہم بندوق والے لوگ تو ہیں نہیں کہ بندوق اٹھا کر مقابلہ کریں۔ ہمارے ساتھ ہارمونیم ہے، رباب ہے، طبلہ ہے۔ ہم اسی سے مقابلہ کرتے ہیں اور ہم اس میں جیتتے بھی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہنر کور کی ساخت اور لوکیشن کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اسے یوں بنایا گیا ہے کہ یہاں سے آواز باہر نہ جائے اور آس پاس کے لوگ متاثر نہ ہوں۔
پختون معاشرے میں موسیقی کے زوال کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پہلے تو اس شعبے کے حوالے سے لوگوں کے منفی رویے ہیں جبکہ ’دوسری اہم وجہ علاقے کا ایک بڑے عرصے تک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہنا ہے۔‘
امجد نے یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا: ’پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے علاقوں میں، سارے پختونخوا میں حجرے ہوا کرتے تھے۔ زیادہ تر رباب اور منگے (مٹکہ) بجاتے تھے بطور ردھم، طبلہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ ان حجروں اور محفلوں میں صرف جوان نہیں بلکہ محلے کے عمر رسیدہ بزرگ بھی بڑے شوق سے شرکت کرتے تھے۔‘
’میرے پاس ایک ستار ہے، جو بہت پرانا ہے۔ یہ ہمارے محلے ڈھیری کے مرحوم امام مسجد کا تھا۔ وہ خود رات گئے اسے بجھاتے اور پھر تہجد کے لیے اٹھ جاتے۔‘
امجد کی خواہش ہے کہ اگر خیبرپختونخوا میں کوک سٹوڈیو کی طرز کا ادارہ بنے تو وہ بہت اعلیٰ معیار کی موسیقی بنا سکتے ہیں کیونکہ ’یہاں ہنر کی کوئی کمی نہیں بس صرف وسائل چاہییں۔‘