امریکہ سے لے کر اٹلی، برطانیہ اور پاکستان تک خواتین سیاست دان تیزی سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے بنائی گئی ڈیپ فیک یا جنسی نوعیت کی تصاویر اور ویڈیوز کا شکار ہو رہی ہیں۔
یہ ایک پریشان کن رجحان ہے جو محققین کے مطابق خواتین کی عوامی زندگی میں شرکت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیپ فیک ویڈیوز کا آن لائن مشہور ہونا اس ٹیکنالوجی کے عالمی ضابطے کی کوششوں کے لیے دھچکا ہے جس میں سستے اے آئی ٹولز اور ایپس شامل ہیں جو خواتین کی نازیبا ویڈیوز بنا سکتی ہیں۔
محققین کے مطابق ایسے مواد کو اکثر عوامی حلقوں میں خواتین کی ساکھ کو داغدار کرنے، ان کے کیریئر کو خطرے میں ڈالنے، عوامی اعتماد کو مجروح کرنے اور بلیک میل یا ہراساں کرنے کے حالات پیدا کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں اے ایف پی نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی کی ایک جعلی ویڈیو کو شناخت کیا تھا جس میں انہیں صوبائی وزیراعلیٰ کو گلے لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
سوشل میڈیا کیپشن میں کہا گیا: ’بے شرمی کی کوئی حد نہیں، یہ بلوچ ثقافت کی توہین ہے۔‘
سیاست میں مردوں کو عام طور پر کرپشن، ان کے نظریات یا مالی حیثیت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ڈیپ فیکس کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ اسے خواتین کو بدنام کرنے کے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی ایک اور سیاست دان عظمیٰ بخاری بھی ایک جعلی ویڈیو کا نشانہ بنیں۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اے ایف پی کو اس بارے میں بتایا: ’جب یہ میرے علم میں آیا تو میں ٹوٹ کر رہ گئی۔‘
پاکستان میں ڈیپ فیکس کو عوامی حلقوں میں خواتین کو جنسی طور پر بدنام کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے جس سے قدامت پسندانہ معاشرے میں ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
باقاعدگی سے ٹی وی پر نظر آنے والی عظمیٰ بخاری نے کئی دنوں تک خاموش رہنے کو ترجیح دی جب انہوں نے سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والے کلپ میں ایک انڈین اداکارہ کے جسم پر ان کے چہرے کو لگا کر ایڈیٹ کی گئی ویڈیو کو دیکھا۔
انہوں نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ ’یہ بہت مشکل تھا، میں افسردہ تھی۔ میری بیٹی نے مجھے گلے لگایا اور کہا ماما آپ کو اس سے لڑنا پڑے گا۔‘
ابتدائی طور پر پیچھے ہٹنے کے بعد وہ اب لاہور ہائی کورٹ میں اپنا کیس لڑ رہی ہیں تاکہ ڈیپ فیک پھیلانے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
غیر سرکاری ادارے امریکن سنلائٹ پروجیکٹ (اے ایس پی) نے 35 ہزار سے زیادہ ڈیپ فیک مواد تلاش کیا ہے جن میں کانگریس کی 25 خواتین سمیت 26 ارکان کو پورن ویب سائٹس پر دکھایا گیا تھا۔
اس گروپ نے گذشتہ ماہ ایک مطالعہ شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ کانگریس کی تقریباً ہر چھٹی خاتون کو ایسے اے آئی سے بنائی گئی تصاویر یا ویڈیوز کا سامنا ہو چکا ہے۔
اے ایس پی کی چیف ایگزیکٹو نینا جانکووِچ کے مطابق خواتین قانون سازوں کو اے آئی سے بنائی گئی ڈیپ فیک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ ایک تشویش ناک رفتار سے ہو رہا ہے۔‘
ان کے بقول: ’یہ صرف ایک ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں، یہ خواتین کی قیادت اور جمہوریت پر براہ راست حملہ ہے۔‘
اے ایس پی نے ان خواتین قانون سازوں کے نام ظاہر نہیں کیے تاکہ ان کو آن لائن تلاش کرنے سے بچایا جا سکے۔
چینل فور کی تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں نائب وزیرِاعظم اینجلا رینر ان 30 سے زیادہ برطانوی خواتین سیاست دانوں میں شامل تھیں جنہیں ڈیپ فیک ویب سائٹس پر نشانہ بنایا گیا۔
اس ٹیکنالوجی کی ترقی نے اے آئی سے متعلق فحش مواد کے ایک بڑھتے ہوئے کاروبار کو جنم دیا ہے جہاں صارفین آسانی سے دستیاب اے آئی ٹولز اور ایپس کا استعمال کرتے ہوئے تصاویر سے کپڑے ہٹانے یا جنسی نوعیت کے ٹیکسٹ ٹو امیج پرامپٹس سے ڈیپ فیک ویڈیوز تیار کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اطالوی وزیر اعظم جورجیا میلونی دو افراد کے خلاف ایک لاکھ یوروز کے ہرجانے کا دعویٰ کر رہی ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ان کے متعلق ڈیپ فیک نازیبا ویڈیوز بنائیں اور انہیں امریکی پورن ویب سائٹس پر پوسٹ کیا۔
میلونی نے گذشتہ سال عدالت میں کہا تھا کہ ’یہ خواتین کے خلاف تشدد کی ایک صورت ہے۔ مصنوعی ذہانت کی آمد کے ساتھ، اگر ہم کسی خاتون کے چہرے کو دوسری عورت کے جسم پر چسپاں ہونے دیں تو ہماری بیٹیاں ان حالات کا شکار ہو جائیں گی اور یہی وجہ ہے کہ میں اس جنگ کو جائز سمجھتی ہوں۔‘
سیاست میں خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہونے والی اے آئی سے بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز کا اثر ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے جس کے بارے میں غیر سرکاری ادارے ٹیک پالیسی پریس نے گذشتہ سال خبردار کیا تھا کہ یہ رجحان سیاست میں خواتین کو ’خاموش‘ کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ڈیپ فیک ویڈیوز کا پھیلاؤ دنیا بھر میں قانون کی پابندیوں کو پار کر چکا ہے۔ پاکستان میں جنسی نوعیت کے ڈیپ فیک ویڈیوز کے خلاف کوئی قانون نہیں۔
برطانیہ میں قوانین ڈیپ فیک مواد کے شیئر کرنے کو جرم قرار دیتے ہیں اور حکومت نے اس سال اس کی تخلیق پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا ہے لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس ٹائم لائن نہیں دی گئی۔
امریکہ کی چند ریاستوں جیسے کیلیفورنیا اور فلوریڈا نے ایسے قوانین پاس کیے ہیں جن کے تحت جنسی نوعیت کی ڈیپ فیک ویڈیوز بنانا ایک قابل سزا جرم ہے اور مہم چلانے والے افراد کانگریس سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایسے قوانین پاس کرے تاکہ ان کی تخلیق اور تقسیم کو روکا جا سکے۔