پشاور میں پیدا ہونے والے گلزار عالم اپنے نغموں کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو تسکین بخشتے رہے ہیں۔ وہ صرف پشاور میں ہی نہیں بلکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل اور صوبے ننگرہار میں بھی مشہور ہیں۔
لیکن لوگ یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے اس فن کی کیا قیمت ادا کی ہے۔
1987 میں پاکستانی فضائیہ میں بھرتی ہونے والے گلزار عالم ایک اچھے سپاہی تھے تاہم گانے کے شوق نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی اور بالآخر انہیں فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لینا پڑی۔
پشاور کے دیگر گلوکاروں کے برعکس گلزار عالم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہی قبیلے کے لیے انقلابی گیت گاتے تھے۔ گلزار عالم کے مطابق ان کے گانوں کو حکومت اپنے لیے ’اشتعال انگیز‘ خطرہ سمجھتی تھی۔
کابل میں جلاوطنی کاٹنے والے 60 سالہ گلزار عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’1987 میں مارشل لا کے دوران میں نے اپنے ایک دوست کی شادی کی تقریب میں انقلابی نغمہ گایا۔ بعد میں مجھے وہاں سے نکال دیا گیا۔‘
2000 کی دہائی میں عالم نے میوزک کے حوالے سے ایک دفتر بنایا اور انقلابی گیت گانا چھوڑ دیے لیکن اس سے بھی مسائل ختم نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پشاور میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا دفتر اور موسیقی کی دکانیں بند کر دی گئیں اور انہیں وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔
گلزار عالم کا کہنا ہے کہ انہوں نے کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد تک ہجرت کی لیکن اس سے بھی ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ انہیں وہاں بھی دھمکیاں مل رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دھمکیوں سے تنگ آ کر انہوں نے 2015 میں موسیقی سے دستبرداری اختیار کر لی اور پشاور میں ایک ڈیری فارم بنا کر اپنا کاروبار شروع کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ کاروبار اچھا تھا اور وہ اس سے خوش بھی تھے لیکن یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔
گلزار عالم نے بتایا کہ ایک مقامی مسجد کے امام نے ان پر سنت کا مذاق اڑانے کا الزام لگا دیا۔
’جمعے کے خطبے میں امام نے کہا کہ میں نے سنت رسول کی توہین کی ہے۔ اس لیے میرے گھر کو آگ لگا دو۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’انہی لوگوں نے میرے ڈیری فارم پر قبضہ کر لیا۔ ان سنگین الزامات کے بعد میرے پاس اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان ہجرت کر جاؤں جو یہاں سے قریب بھی تھا۔‘
گلزار کے مطابق: ’میں ایک عرصے سے یہاں (کابل) آتا جاتا رہا ہوں۔ یہاں میں نے حامد کرزئی کی حکومت میں پروگرامز کیے تھے۔ یہی مجھے نزدیک اور آسان لگا۔ اس لیے میں یہاں آ گیا۔‘
2017 میں کابل منتقل ہونے کے بعد انہیں ایک میوزک اکیڈمی اور سٹوڈیو بنانے کا خیال آیا۔ ان کے مطابق یہاں بھی مشکلات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
تاہم کابل میں بھی ان کے فن اور میوزک اکیڈمی کا خیرمقدم نہیں کیا گیا۔
گلزار عالم بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک اچھا کاروبار تھا تاہم دو ماہ بعد ہی انہیں سٹوڈیو اور اکیڈمی کو بند کرنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے کابل میں سکول نہیں جاسکتے تھے کیونکہ کچھ لوگ ان کا پیچھا کر رہے تھے۔
گلزار عالم کے بیٹے مختیار عالم نے بتایا: ’پشاور میں ہم سکول جاسکتے تھے، ہم باہر جاکر لطف اندوز ہوسکتے تھے لیکن یہاں (کابل میں) بہت ساری مشکلات ہیں۔ ہم باہر نہیں جاسکتے۔ ہم گھر میں محصور ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی تھم چکی ہے۔‘
گلزار عالم کو پاکستان بہت یاد آتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر ان کی سلامتی کی گارنٹی دی جائے تو وہ اب بھی اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔
’میں اپنے بارے میں نہیں بلکہ اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔ میں اپنے لیے دھمکیاں قبول کرسکتا ہوں لیکن اپنے بچوں کے لیے نہیں۔‘
گلزار عالم کا کہنا ہے کہ ان کی طرح ان کے بہت سے ساتھی گلوکار دھمکیوں کے باعث ملک چھوڑ کر چلے گئے اور اب وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔