وزیر اعظم عمران خان کی 30 جون کی پارلیمان میں تقریر دراصل بجٹ پر تھی لیکن انہوں نے مجموعی تقریر کا محض 5 سے 10 فیصد حصہ سالانہ بجٹ پر صرف کیا۔ انہوں نے زیادہ بات پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق کی۔ ملک کی خارجہ پالیسی ان کی سوچ کے مطابق کیا ہونی چاہیے اور خطے اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات کیسے آگے بڑھانا چاہیے انہوں نے ان پہلوؤں پر بھرپور روشنی ڈالی۔
اس پر وہ ہمیشہ بات کرتے ہیں اور بہت بات کرتے ہیں۔ کچھ باتیں وہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 22 جون کو شائع کیے گئے آرٹیکل میں لکھ چکے تھے۔ وہ کہہ چکے تھے کہ پاکستان نے امریکی جنگ میں جو حصہ لیا وہ غلط تھا۔ ان کا اصرار ہے کہ پاکستان کو کسی بھی جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ ایسی کسی جنگ سے دور رہنا چاہیے جس سے پاکستان کا اپنا کوئی تعلق نہیں۔
جس طرح افغانستان کی جنگ ایک یا دو سال نہیں بلکہ 40 برس سے زیادہ طویل ایک جنگ اور خانہ جنگی رہی ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی شمولیت پر وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل اور اب بھی، نائن الیون کے بعد جب اسامہ بن لادن کے حوالے سے اور پھر طالبان حکومت کے خلاف جو حملہ ہوا، اس حوالے سے امریکہ کا ساتھ دینے کے جنرل مشرف مشرف کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مضمون میں انہوں نے جو بنیادی نقطہ بیان کیا یعنی کہ ’پاکستان امریکہ کے ساتھ اب امن میں شرکت دار ہوسکتا ہے مگر جنگ میں شرکت داری نہیں کریں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پارٹنر اِن پیس ہوں گے لیکن پارٹنر ان کنفلکٹ نہیں ہوں گے۔‘
وزیراعظم عمران خان کا کہنا کہ افغان جنگ اور اس سے پہلے 60 کی دہائی میں پالیسیوں سے ان کے ملک نے سبق سیکھے ہیں۔ وہ کہیں کہیں اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ ہم امریکہ اور چین کی سرد جنگ میں میانہ روی سے چلے اور ایک غیرجانبدارانہ پالیسی اختیار کی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کہنے کو پاکستان سیٹو اور سینٹو کا حصہ تھا لیکن پاکستان وہ ملک تھا جس نے آگے بڑھ کر چین کے ساتھ دوستی کی بات کی۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ چین اگلی چند دہائیوں میں مستقبل کا ایک سپر پاور بن کر ابھرے گا۔
تو پاکستان کی جو پالیسی رہی کہ غیر جانبدارانہ ہو، دوستی سب سے ہو، لڑائی کسی اور سے کسی اور کی خاطر نہ کی جائے۔ اس طرح کی پالیسی اپنا کر پاکستان نے اپنے لیے ایک اچھے نتائج حاصل کیے۔ اس پر ایک بڑی بحث رہتی ہے کہ پاکستان نے کتنا اچھا اور کتنا برا کیا لیکن وہ بہرحال ایک اور وقت کے لیے بحث ہے۔ اس وقت جو دلچسپ بات ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں یہ بتا دیا کہ ہم آپ کا کسی اور جنگ اور جھگڑے میں ساتھ نہیں دیں گے بلکہ دوستی میں ساتھ ہیں۔ آج کل کے حالات اور پس منظر میں اس بیان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ موجودہ حالات کے حوالے سے تین چیزوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔
نمبر ایک یہ کہ امریکہ نے پاکستان کو خفیہ طور پر بڑے واضح انداز میں بےشک یہ بتا دیا تھا کہ اس کو فوجی اڈوں کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد جو صورت حال پیدا ہوگی، اس پر نہ صرف یہ کہ نظر رکھ سکے بلکہ ردعمل بھی خاص طور پر اگر فضائی حملوں یا ڈرون حملوں کی ضرورت پڑے، تو دے سکے۔ لیکن پاکستان نے تو متعدد مرتبہ بہت واضح طور پر یہ بتا دیا امریکہ کو کہ یہ ناممکن ہے۔ وزیر اعظم نے خود ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین انٹرویوز میں اڈوں کے معاملے میں واضح طور پر کہہ دیا بالکل نہیں (ابسلوٹلی ناٹ)۔
وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھی اپنے امریکی ہم منصب کو، جب وہ جینیوا میں حال ہی میں ملے تو وہاں بتا دیا کہ ان کے لیے اڈے دینا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان اور امریکہ کی اڈوں سے متعلق ایک دیرینہ تاریخ ہے۔ 60 کی دہائی میں پاکستان نے پشاور میں بڈھ بیر میں اڈہ دیا، اس کے بعد بلوچستان میں شمسی بیس اور سندھ میں بھی ہوائی اڈوں کی سہولت مہیا کی۔ یہی تمام فیصلے ہیں جن پر وزیراعظم عمران خان نے بہت ہی واضح اور بہت ہی غیر معمولی طور پر کہا کہ اب یہ غلطی کبھی نہیں دوہرائیں گے۔
اس حوالے سے دوسری جو بات ہے وزیراعظم نے یہ خود کہہ دیا ہے، کچھ تقریروں میں بھی ذکر کیا لیکن چین کے ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دوست چین ہے اور اس دوستی میں کوئی ردوبدل نہیں کی جاسکتا، ہر حال میں تعلقات اور دوستی قائم رہے گی۔ وزیراعظم نے یہ بھی بتا دیا کہ ان پر دباؤ ہے کہ اس دوستی کو کم کیا جائے۔ انہوں نے امریکہ کا نام نہیں لیا لیکن پاکستان اور چین کی دوستی تو امریکہ ہی کو کھٹکتی ہے۔ امریکہ نے خود بھی اس طرح کے بیانات دیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانیہ میں جی سیون کا گذشتہ دنوں سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس میں بھارت کو بحیثیت ایک مہمان مبصر کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ دنیا میں چین سے بڑھ کر اور کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس طرح چین کے ساتھ دشمنی کو امریکہ اور اس کے حواریوں نے بڑا واضح کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا کھڑے ہو جانا اس کی خارجہ پالیسی کا ایک بہت ہی اہم ستون ہے۔
تیسرا مسئلہ جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا جو کردار بنتا ہے اس وقت اس کی وجہ سے امریکہ کو پاکستان کے ساتھ ایک تعلق تو رکھنا ہے۔ پاکستان کو یہ اہم موقع فراہم ہوا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد پاکستان کا کردار بڑھے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے البتہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان عسکری کردار نہیں چاہتا لیکن خطے میں قیام امن اور چین کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے کردار ضرور ادا کرے گا۔
اس وقت وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر بہت سے سوالات اٹھے اور باتیں کی گئیں کہ کیا یہ ایک صحیح فیصلہ ہے۔ کیا یہ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا وزیراعظم کو اتنے دوٹوک الفاظ میں واضح طور پر یہ کہنا چاہیے تھا یا پھر ان کو ایک گرے ایریا میں صورت حال کو رکھنا چاہیے تھا۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی اور نیشنل سکیورٹی کے تمام سٹیک ہولڈرز اس معاملے پر بہت غوروغوض کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس کردار میں ڈھالنا چاہتے ہیں جو پہلے پاکستان نے ادا نہیں کیا۔
وزیراعظم عمران خان کے متعدد بیانات کے باوجود امریکہ کی طرف سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد سے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ بظاہر مناسب انگیجمنٹ کی ہی نہیں ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ان کا ایک بہت گہرا سیاسی پہلو بھی ہے، جن سے اندرون خانہ نمٹنا پڑتا ہے۔
جہاں تک اڈے دینے کا تعلق ہے یہ ایک سیاسی معاملہ نہیں ہے۔ لیکن یہ قومی سلامتی سے جڑا معاملہ ہے، جس پر تمام سٹیک ہولڈرز نے مل کر ایک فیصلہ کیا ہے۔ اڈے نہ دینے کے نتیجے میں جو نقصانات ہوسکتے ہیں ان میں ایک دہشت گردی کا بڑھنا بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ انتہا کی بڑھتی ہوئی چین اور امریکہ کی کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کا یہ ایک صحیح عمل ہے کہ سب سے دور رہے۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد سے نہ کوئی امریکی ردعمل سامنے آیا ہے اور نہ کسی دباؤ کے اشارے ہیں۔
امریکہ بھی یہ خوب سمجھتا ہے۔ نہ پاکستان کو امریکہ دوست سمجھتا ہے اور نہ دشمن۔ اب پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے اس تعلق کو ایک نئی سمت لے جانا چاہتا ہے۔