پندرہ اگست 2021 کو افغانستان پر طالبان کے قابض ہونے کے بعد سے افغان خواتین کو زندگی کے مختلف شعبہ جات میں مسائل کا سامنا ہے، جن میں تعلیم و تربیت، روزگار اور سماجی مسائل سرِفہرست ہیں۔ ان مسائل کے سبب افغانستان میں، جہاں پہلے ہی خواتین کے لیے اقتصادی اور سماجی سہولیات کا فقدان ہے، وہاں خواتین کے حالات دن بدن مزید مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔
طالبان حکومت کی جانب سے چھٹی جماعت کے بعد افغان لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے بعد زیادہ تر افغان لڑکیاں اور خواتین، جو طالبان حکومت سے پہلے سکولز اور یونیورسٹیوں میں زیرِتعلیم تھیں، اب مختلف ہنر سیکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ تاہم، طالبان کے سخت مذہبی حکومتی قوانین لاگو ہونے کے سبب خواتین کو نہ صرف ہنر سیکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ ضرورت کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنا محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
طالبان حکومت نے افغانستان بھر میں خواتین پر سکولز اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ انگلش اور کمپیوٹر سینٹرز جانے، اکیلے بغیر کسی محرم کے سفر کرنے، میڈیا میں کام کرنے اور مردوں کے ساتھ کسی بھی جگہ کام کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
طالبان کے مرکز، صوبہ قندھار میں خواتین پر عائد ان پابندیوں پر مزید سختی سے عمل درآمد ہوتا نظر آ رہا ہے۔
بے سہارا اور بیوہ خواتین کو سلائی کڑھائی سکھانے والے قندھار کے ایک سکلز سینٹر میں وہ خواتین بھی اب ان پابندیوں سے پریشان ہیں، جو اپنے گھروں کی واحد کفیل ہیں اور جن کے گھروں میں کمانے والا دوسرا کوئی مرد موجود نہیں۔
ان بیوہ خواتین میں سے ایک ھیلہ درخانی ہیں، جو افغانستان پر طالبان کے قبضے کے وقت دسویں جماعت کی طالبہ تھیں اور میڈیکل کی تیاری کر رہی تھیں۔ تاہم، تعلیم بند ہونے کے بعد مِڈوائفری نرسنگ سیکھنے لگیں، مگر وہ بھی بند ہونے کے بعد اب درخانی قندھار شہر میں سلائی کڑھائی کا کام کر رہی ہیں۔
’سکول، سینٹرز اور نرسنگ کورس بند ہونے کے بعد میں مجبوراً یہاں آئی، کیونکہ کوئی نہ کوئی کام کرنا تو لازمی ہے۔ اگر نہ کریں تو کھائیں گے کیا؟ یہاں میں کپڑوں کی ڈیزائننگ سیکھنے کے علاوہ سلائی بھی کرتی ہوں، جس کے مجھے چار سے پانچ سو روپے مل جاتے ہیں۔‘ (یہ رقم پندرہ سو سے دو ہزار تک پاکستانی روپے بنتی ہے۔)
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور اُمیدیں تھیں، خواب تھے کہ بارہویں جماعت مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی جائیں گے۔ میرا شوق تھا کہ ڈاکٹر بنوں، مگر ہمارے وہ خواب ٹوٹ گئے۔ چھٹی جماعت کے بعد سکول بند ہو گئے تو میں انگلش سینٹر پڑھنے جاتی تھی، پھر وہ بھی بند ہو گیا۔ کئی مہینوں بعد مِڈوائفری نرسنگ کورس شروع کیا، مگر وہ بھی اب بند ہو گیا ہے، اور وہاں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں بہت زیادہ مشکلات ہیں۔ ہم جب یہاں آتے جاتے ہیں تو یہی ڈر ہوتا ہے کہ اب کوئی نہ کوئی روک کر جانے سے منع کرے گا، اور یہ آخری سہارا بھی ہم سے چھن جائے گا۔ جب ہم گھر آتے جاتے ہیں تو طالبان ٹیکسی میں بھی اکیلے نہیں چھوڑتے، اور میرا کوئی نہیں جو میرے ساتھ آئے، کیونکہ میں اکیلی ہوں اور گھر کی ساری ذمہ داریاں میرے سر پر ہیں۔‘
ھیلہ درخانی کے ساتھ اسی سینٹر میں 20 سالہ مرویٰ بھی کام کرنے آتی ہیں، جو اپنے چھ افراد پر مشتمل خاندان کی واحد کفیل ہیں۔
مرویٰ کے والد کے انتقال کے بعد وہ اپنی والدہ، بہنوں اور چھوٹے بھائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دو جگہوں پر دن بھر کام کرتی ہیں، تاہم گھر اور خاندان میں محرم نہ ہونے کے سبب گھر سے کام کی جگہ تک آنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
’میں دسویں جماعت میں تھی کہ طالبان کی جانب سے سکول بند ہوئے۔ والد کے انتقال کے بعد میں ہی گھر کی بڑی ہوں اور گھر کا کرایہ اور دوسرے اخراجات پورے کرتی ہوں۔ میں صبح یہاں آ کر کام کرتی ہوں، جس کے مجھے دو سے پانچ سو روپے مل جاتے ہیں، اور شام کے وقت ایک ڈینٹل کلینک میں شاگرد کے طور پر کام کرتی ہوں۔ مگر محرم نہ ہونے کے سبب اکثر اوقات گھر سے باہر نکلنا ناممکن ہوتا ہے، اور ڈرتی ہوں کہ اگر کبھی طالبان نے راستے میں روک کر محرم کے متعلق پوچھا تو یہ کام بھی چھوٹ جائے گا۔‘
15 اگست 2021 کو افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد سے اب تک طالبان حکومت نے اسلامی قوانین کی اپنی تشریح کے تحت افغانستان میں سخت قوانین نافذ کیے ہیں جن میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ ان پابندیوں میں چھٹی جماعت کے بعد تعلیم حاصل نہ کرنے، پارکس اور دوسرے تفریحی مقامات پر جانے، ورزش اور کسی بھی طرح کے کھیلوں میں حصہ لینے، اکیلے سفر کرنے اور عوامی مقامات پر بلند آواز میں بات کرنے پر پابندی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان خواتین پر ان پابندیوں کے باعث طالبان حکومت اندرونِ ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے اور سفارتی سطح پر بھی شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، افغانستان میں دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد کی زندگی کا دارومدار مختلف این جی اوز کے ذریعے امداد پر ہے، اور طالبان حکومت کے آنے کے بعد ان امداد میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں دنیا کے دیگر بحرانوں کے علاوہ طالبان حکومت کی پالیسیاں شامل ہیں۔
حال ہی میں آسٹریلیا، نیدرلینڈ، جرمنی اور کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے طالبان حکومت کی افغان خواتین پر سخت پابندیوں کے خلاف قانونی اقدام (ثالثی قانون) شروع کیا ہے، جو ممکنہ طور پر عالمی عدالت تک لے جایا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پنی وانگ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی اسمبلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ’طالبان نے انسانی حقوق، خواتین اور لڑکیوں کی بنیادی آزادیوں کی توہین کی ہے، اور وہ مسلسل منظم طور پر اس ظلم میں مصروف ہیں۔‘ انسانی حقوق کی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بھی دیگر ممالک سے کہا ہے کہ وہ اس متعلق ان چار ممالک کی حمایت کریں۔
تاہم، طالبان حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔ طالبان حکومت کے ترجمان حمداللہ فطرت نے ایکس پر لکھا کہ اسلامی امارات پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سب کے انسانی حقوق محفوظ ہیں اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔
اس سے قبل طالبان حکومت کے وزیر تعلیم ندا محمد ندیم نے افغان خواتین کو صبر اور برداشت کی تلقین کی تھی۔ انہوں نے افغانستان کے سرکاری ٹی وی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان حکومت اسلامی شریعت کی روشنی میں خواتین کو تمام حقوق دینے کے لیے پُرعزم ہے۔