ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں ٹھوس شواہد پر مبنی: پاکستان

پاکستان کے دفتر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ ’افغانستان اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکے گا۔‘

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بدھ کو افغانستان میں فضائی حملوں سے متعلق کہا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف ٹھوس شواہد کی بیناد پر کارروائی کی جاتی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران افغانستان کے اندر کارروائی سے متعلق سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’پاکستانی سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار پاکستانی عوام کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے سرحدی علاقوں میں آپریشن کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سکیورٹی ادارے ٹی ٹی پی جیسی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، اور یہ کارروائیاں ٹھوس شواہد پر مبنی ہوتی ہیں۔

’ہم افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے باوجود ہم نے ہمیشہ افغانستان سے رابطے رکھے۔ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سکیورٹی کے لیے پرعزم ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کو روکے گا۔ دہشت گردی کی پناہ گاہوں کی موجودگی کے باوجود ہم نے ہمیشہ سفارت کاری کا انتخاب کیا۔‘

طالبان حکام نے گذشتہ روز بتایا تھا کہ افغانستان کے مشرقی سرحدی علاقے میں پاکستان کے فضائی حملوں میں 46 شہری جان سے چلے گئے، جبکہ پاکستانی سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ بمباری ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر کی گئی۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ منگل کی رات پاکستان نے مشرقی صوبے پکتیکا کے برمل ضلعے کے چار علاقوں پر بمباری کی، انہوں نے کہا کہ ’مرنے والوں کی کل تعداد 46 ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔‘

طالبان کی وزارت دفاع نے منگل کی رات ایک بیان میں ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’وحشیانہ‘  اور  ’کھلی جارحیت‘ قرار دیا۔

بیان کے مطابق: ’اسلامی امارت اس بزدلانہ اقدام کا جواب دیے بغیر نہیں رہے گی، بلکہ اپنے علاقے اور خودمختاری کے دفاع کو اپنا ناقابل تنسیخ حق سمجھتی ہے۔‘

ترجمان دفتر خارجہ نے آج مزید کہا کہ ’افغانستان میں نمائندہ خصوصی صادق خان رواں ہفتے کابل میں تھے، جہاں انہوں نے افغانستان کے وزیر خارجہ امیر متقی، وزیر داخلہ سراج الدین افغانی، وزیر تجارت نورالدین عزیزی، نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر اور افغانستان کے اہم تاجروں سے اہم ملاقاتیں کیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان ملاقاتوں میں گفتگو کا محور پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بڑھانا تھا، جس میں سکیورٹی، بارڈر مینیجمنٹ، دو طرفہ تجارت، ٹرانزٹ اور علاقائی روابط شامل تھے۔

’انہوں نے ایک پُرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔‘

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ نمائندہ خصوصی نے دہشت گرد گروپوں، خصوصاً ٹی ٹی پی سے متعلق تمام معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا، جنہیں افغانستان کے اندر پناہ گاہیں ملی ہوئی ہیں۔

ترجمان کے مطابق پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے سکیورٹی سے متعلق معاملات پر بات چیت کے لیے رابطے میں ہیں، جس میں بارڈر مینیجمنٹ اور تجارت جیسے امور شامل ہیں۔

’پاکستانی سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سرحدی علاقوں میں آپریشن کرتے ہیں، اور اس حوالے سے اہداف کو چُنا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اجتماعی خطرہ ہیں۔ لہٰذا، ہمارے لیے ٹی ٹی پی کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ضروری ہے۔

’پاکستان مذاکرات اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے، اور ہم نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں ہمیشہ سفارت کاری کو ترجیح دی ہے۔‘

ترجمان دفتر خارجہ نے گذشتہ روز افغانستان میں پاکستان کے فضائی حملوں سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہیں گی۔

آج کی پریس بریفنگ میں امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ مشیر رچرڈ گرینل سے متلعق بھی گفتگو ہوئی جو پاکستان سے متعلق مختلف معاملات پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر مسلسل بیان دے رہے ہیں، ان میں وزیر دفاع خواجہ آصف پر تنقید بھی شامل ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پریس بریفنگ کے بعد ممتاز زہرہ سے رچرڈ گرینل سے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا ’متعدد مواقعوں پر کہہ چکے ہیں کہ ہم امریکہ کے ساتھ باہمی احترام و مفاد اور ایک دوسرے کے ملکی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر مثبت تعلقات چاہتے ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا ’جہاں تک کوئی بھی انفرادی حیثیت میں کوئی تبصرہ کرتا ہے، ہم اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان