یہ کالم آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن سکتے ہیں
امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کے بعد کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کے ساتھ اس کی کشیدگی میں جو صدر ٹرمپ کی صدارت کے دوران زیادہ تر تجارتی معاملات کی وجہ سے رہی واضح کمی آئے گی۔ لیکن چند شواہد اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ تعلقات میں مزید کشیدگی کا امکان موجود ہے۔ اس سے ایشیا اور برصغیر شاید ایک نیا سیاسی اور اقتصادی میدان جنگ بننے جا رہے ہیں۔
اس بات کا عندیہ صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں کافی غیر مبہم الفاظ میں دیا۔ وہ پچھلے سال انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ کہتے رہے کہ وہ چین کے معاملے میں کافی کمزور ہیں اور اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں وہ صدر ٹرمپ کی کرونا (کورونا) وائرس کے بارے میں چینی یقین دہانیوں پر یقین کرنے کو ان کی کمزوری سے تعبیر کرتے رہے۔
کشیدگی میں اضافے کا پہلا اشارہ صدر بائیڈن کا اپنی خارجہ پالیسی چلانے والے اہلکاروں کے انتخاب سے ملتا ہے جو چین کے بارے میں جارحانہ خیالات رکھتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پچھلے چار سالوں کی پالیسیوں سے امریکہ چین کے مقابلے میں کافی کمزور ہوچکا ہے اور امریکہ کو اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلون بھی اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں اور ان کی نظر میں چین عالمی برتری اور غلبے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
کچھ دوسرے مشیر یہ سمجھتے ہیں کہ اس چینی برتری اور غلبے کی کوشش کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکی فوجی قوت کو اتنا بڑھایا جائے کہ اس میں بحیرہ جنوبی چین میں چینی جنگی جہازوں، آبدوزوں اور دیگر فوجی تنصیبات کو 72 گھنٹوں کے اندر ختم کرنے کی صلاحیت ہو۔
ان اہلکاروں کے یہ خیالات علاقائی امن کے لیے کافی خطرناک ہیں۔ یہ اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتے ہیں جب اس جارحانہ طرز عمل کا اظہار کرنے والے صدر ٹرمپ جیسی غیر ملکیوں سے نفرت کی سوچ نہ رکھتے ہوں اور قومی دھارے میں بھی شامل ہوں۔ اس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے اہلکاروں کے خیالات پر مبنی جارحانہ پالیسی کو عوامی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔
ان خیالات سے یہ آسانی سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارت میں عدم توازن ان کے تعلقات کا صرف ایک پہلو ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے خارجہ پالیسی چلانے والے اہلکار چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور علاقائی اثر و رسوخ سے زیادہ خوفزدہ ہیں اور اس کو کسی نہ کسی طریقے سے روکنے یا کم کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے۔
اسی طرح چین پر انسانی حقوق، تائیوان، ہانگ کانگ، اویغر مسلمانوں اور بحیرہ جنوبی چین کے جزیروں کے بارے میں بھی دباؤ ڈالا جائے گا۔ ان اندرونی مسائل کے بارے میں چینی حکومت کافی حساس ہے کیونکہ یہ اس کی سلامتی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں اور ان پر امریکی دباؤ تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کر سکتا ہے۔
امریکی سلامتی کے ادارے چین کے بحیرہ جنوبی چین میں فوجی طاقت میں اضافے، بی آر آئی پروجیکٹ اور علاقائی ممالک کو دوست بنانے کے لیے قرضوں کے فیاضانہ استعمال سے بھی بہت فکرمند ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں چین میں ہائی ٹیک انڈسٹری کا پھیلاؤ اور کامیابیاں بھی پریشان کیے ہوئے ہیں۔ یہ چینی علاقائی حکمت عملی امریکہ کی عالمی بالادستی کو چیلنج کرتی ہے اور سلامتی کے ادارے اور بائیڈن انتظامیہ کے خارجہ پالیسی کے اہلکار اس کا بھرپور مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چین سوویت یونین سے زیادہ خطرناک حریف ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ نظریات کی بنیاد پر اپنا رسوخ رسوخ بڑھانے کی بجائے معاشی ترقی کا زیادہ مضبوط اور دیرپا ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
اگر چین اور امریکہ کے تعلقات میں مزید خرابی آتی ہے تو اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ ہمارے سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے مزید تنقید اور جانچ پڑتال کی زد میں آئیں گے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ ہماری کمزور معیشت اس طرح کے دباؤ پر مزید ابتری کی طرف جا سکتی ہے۔
ہمارے پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دباؤ کے لیے تیار رہیں اور ایک مربوط پالیسی اختیار کریں جس سے اس سامنے نظر آنے والے چیلنج کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ ہمارے امریکہ اور چین دونوں سے اچھے تعلقات ضروری ہیں اور ایسی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے ہم ان دو ہاتھیوں کی جنگ میں اپنے مفادات کا دفاع کامیابی سے کر سکیں۔ ہمیں اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند اقدامات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
1. ہمیں قومی ہم آہنگی، اتفاق اور معاشی ترقی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کی فضا کو ختم کیا جائے۔ ایک اندرونی طور پر کمزور ریاست ان بھاری بھرکم چیلنجز کا اتفاق اور اعتماد سے کبھی بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔
2. ہمیں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تمام قوانین کے اجرا اور عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ امریکہ ہمارے خلاف ایف اے ٹی ایف کے ہتھیار کو مستقبل میں استعمال نہ کر سکے اور نہ ہی یہ پابندیاں ہماری معاشی سلامتی کو متاثر کریں۔
3۔ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہماری کوششیں جاری رہنی چاہیں جس کے ذریعے امریکی انخلا ممکن ہو سکے اور افغانستان میں امن قائم ہو سکے۔ یہ امریکہ اور چین دونوں کے لیے سودمند ہوگا۔
4۔ سی پیک پروجیکٹس پر تذبذب کو ختم کرتے ہوئے ان پر کام تیزی سے مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے امریکہ کے ساتھ تنازعات کی فہرست میں کمی آئے اور ہمارے ہاں معاشی خوشحالی کا دور شروع ہو۔ امریکہ کو ساتھ میں سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں سی پیک منصوبے جن میں سڑکیں، توانائی اور ریلوے کے منصوبے شامل ہیں کسی طرح بھی امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
5۔ بایڈن انتظامیہ کو قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ علاقائی امن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان بھارت تعلقات میں موجودہ حدت میں کمی لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
6. امریکہ کے ساتھ معاشی تعلقات اور تجارت میں گہرائی پیدا کر کے ہم اپنے باہمی تعلقات میں نئی راہیں پیدا کر سکتے ہیں۔ اس میں بنیادی ڈھانچوں خصوصا متبادل توانائی کے منصوبوں پر امریکی سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول مہیا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمیں ممکنہ چینی تحفظات کو سفارتی نفاست سے نمٹنے کی ضرورت ہوگی۔