خطے میں جاری کشیدگی کے تناظر میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی) اور عرب ریاستوں کی لیگ ( عرب لیگ، ایل اے ایس) کے لیڈروں کی مقدس شہر مکہ مکرمہ میں 30 مئی کو ہنگامی سربراہ کانفرنسیں طلب کی ہیں۔ ان کانفرنسوں میں حالیہ جارحیت اور اس کے مضمرات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بڑی صراحت سے بیان کیا ہے کہ الریاض ایران کے عرب مفادات پر حالیہ حملوں سے کیسے نمٹنا چاہتا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمان مرحوم کی وضع کردہ پالیسیوں کے ایک اساسی اصول کا حوالہ دیا۔
انہوں نے یہ اصول وضع کیا تھا کہ مشترکہ مفادات کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے سے قبل عرب اور مسلم اتحادیوں سے حکمت عملی اور لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا جائے اور انہیں اعتماد میں لیا جائے ۔
شاہ سلمان نے پورے عزم سے بانیِ مملکت کے اس نظریے کی وضاحت کی کہ الریاض ممکنہ خطرات سے کیسے نمٹے گا۔
انہوں نے عجلت میں کسی طرح کے ادھورے اقدامات کے بجائے اپنے شراکت داروں سے مشاورت کی خواہش کا اظہار کیا ہے تا کہ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں اور متحدہ عرب امارات کے ساحلی علاقوں کے نزدیک چارتجارتی بحری جہازوں پر حالیہ تخریبی حملوں کے بعد علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے بہتر حکمت عملی اختیار کی جاسکے۔
یمن کے حوثی باغیوں کے سعودی عرب کی تیل کی پائپ لائن پر ڈرون حملے اور یو اے ای کے پانیوں میں چار بحری جہازوں پر تخریبی حملے بہت چوکسی تیاریوں کے متقاضی ہیں اور ایسے جارحانہ حملوں سے نمٹنے کے لیے جدید فوجی صلاحیتیں درکار ہیں۔
ایران کے ذمے دار ی کو قبول کرنے سے انکار کے باوجود یہ حملے اس کے غیر ذمے دارانہ کردار کے ہی مظہر ہیں کیونکہ یہ بات تو واضح تھی کہ تیل کی تنصیبات پر کسی حملے کی عالمی سطح پر مذمت کی جائے گی اور اس کے جواب میں مربوط ردعمل کا اظہارکیا جائے گا۔
ایران ماضی میں آبنائے ہرمز سے بحری جہازوں کو روکنے کی دھمکی دے چکا ہے۔یہ اور بات ہے کہ عالمی سطح پر فوجی محاذ آرائی کے خدشے کے پیش نظر اس نے اس کی جرأت نہیں کی تھی۔اب اس بات میں تو کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے ایران پر امریکا کی عاید کردہ حالیہ پابندیوں کا ردعمل تھے۔ان پابندیوں نے ایرانی نظام کو جکڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کو غیر ذمے دارانہ اقدامات پر مجبور کردیا ہے۔
اس طرح کے اقدامات سے پورے خطے کو ایک نئی جنگ میں جھونکنے کے خطرات پیدا ہوچکے ہیں۔
ان سے نمٹنے کی آوازیں زور پکڑرہی تھیں اور ایسے میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عرب دنیا کے امور میں ایران کی مداخلت سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر غور کرنے کی پیش کش کی ہے۔ یہ دراصل ایک طرح سے خطے کو تباہی سے بچانے کی کوشش ہے۔
ہم یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کانفرنسوں میں اتحادیوں کے درمیان بڑے کھلے ماحول میں تبادلہ خیال ہوگا تاکہ ان مداخلتوں کا بڑے مربوط انداز میں جامع جواب دیا جاسکے۔ شاہ سلمان کی حکمت عملی کی ان کانفرنسوں کے لیے مقام کے انتخاب سے بھی عکاسی ہوتی ہے۔ مقدس شہر مکہ مکرمہ کے سوا اس طرح کی بات چیت کے لیے کرہ ارض میں اور بہتر جگہ کون سی ہوسکتی ہے؟ اور پھر یہ بات چیت مسلمانوں کی عید الفطر سے چند روز قبل ہوگی۔
کانفرنسوں میں شریک ہونے والے قائدین جب جنگ سے بچنے کے لیے آپس میں تبادلہ خیال کررہے ہوں گے تو ایسے میں شاہ سلمان اس بات کے خواہاں ہوں گے کہ امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں سعودی عرب اور عربوں کے مفادات کا دفاع کیسے کیا جاسکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کا آغاز نہیں چاہتے ہیں جبکہ ایرانی لیڈروں نے بھی جنگ کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔اس کے باوجود الریاض نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اگر تہران جنگ کا انتخاب کرتا ہے تو وہ اپنا اور اپنے مفادات کا پوری قوت سے دفاع کرنے کو تیار ہے۔
30 مئی کو جی سی سی اور عرب لیگ کی ریاستوں کے سربراہ اجلاس منعقد ہوں گے اور 31 مئی کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی چودھویں سربراہ کانفرنس منعقد ہوگی ۔اس کا عنوان’’مکہ_سمٹ: مستقبل کے لیے اکٹھ‘‘ ہے۔
یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اس تنظیم کے اجلاس میں کس بات پر اتفاق رائے ہوگا۔ متوقع ’’مکہ اعلامیے‘‘ اور او آئی سی کے حتمی اعلامیے میں مسلم دنیا کو درپیش موجودہ مسائل وامور کا احاطہ کیا جائے گا۔
ان میں فلسطین میں ہونے والی حالیہ پیش رفت، میانمر میں روہنگیا مسلم مہاجرین کا بحران ، دنیا بھر میں اسلام مخالف مہم (اسلامو فوبیا) کی نئی مظہریت، دہشت گردی اور متشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کی ضرورت اور دوسرے سیاسی، اقتصادی ، ثقافتی اور سماجی امور شامل ہوں گے لیکن ان سب میں سلامتی اور استحکام سے متعلق معاملات سرفہرست ہوں گے۔نیز عرب اور مسلم دنیا کو متاثر کرنے والی پیش رفتوں اور واقعات کے بارے میں ایک متحدہ مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔
اس کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ شاہ سلمان کے 30 مئی کو طلب کردہ اجلاسوں کا مقصد خلیج، عرب اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل کا عملی حل پیش کرنا اور ان کے درمیان اختلافات کا حل نکالنا ہے۔
اس طرح کی کانفرنسیں صفوں میں اتصال، مربوط کوششوں اور مسلم اُمہ کی بھلائی اور تحفظ کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ نیز یہ رمضان کے اختتام اور عید الفطر کو اچھے طریقے سے منانے کی تیاری کرنے کا بھی موقع فراہم کرتی ہیں۔
____________
شہزادہ ترکی الفیصل سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ ہیں۔ وہ شاہ فیصل مرکز برائے تحقیق اور اسلامی مطالعات کے چیئرمین اور شاہ فیصل فاؤنڈیشن کے بانیوں میں سے ہیں۔ وہ امریکا میں جولائی 2005ء سے 11 دسمبر 2006ء تک سعودی عرب کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔