مطالبات تسلیم: بی این پی وفاقی کابینہ میں شمولیت پر رضامند

محمد ہاشم نوتیزئی نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور ان کے دوسرے ممبر قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ وفاقی وزرا کے عہدوں کا حلف لیں گے۔

بلوچستان نینشل پارٹی کے رہنماؤں کی وزیراعظم شہباز شریف سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات (تصویر: پرائم منسٹر ہاؤس)

موجودہ حکومت میں حکمراں جماعتوں کے اتحاد میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی نے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد اب اعلان کیا ہے کہ وہ وفاقی کابینہ کا حصہ بنے گی۔

عمران خان کے دورہ حکومت میں بلوچستان سے پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بی این پی نے اپنے مطالبات کی عدم منظوری پر اتحاد ختم کردیا تھا اور عمران خان خلاف تحریک عدم اعتماد میں ان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

موجودہ حکومت کے قیام کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے بعد چاغی کے علاقے نوکنڈی میں افغانستان کی سرحد پر فائرنگ کے مبینہ واقعے میں ڈرائیور حمید اللہ کی ہلاکت کے بعد بی این پی نے بطور احتجاج وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

بی این پی کے سربراہ اور ممبر قومی اسمبلی سرداراخترمینگل نے چاغی واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم اس حکومت کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں جس میں اس قسم کے حادثات ہو رہے ہوں۔‘

اس کے بعد نوکنڈی واقعے کے خلاف جب وہاں کے عوام نے احتجاج کیا تو ان پر فائرنگ کرکے چھ افراد کو زخمی کردیا گیا تھا۔ جس پر بی این پی کے اراکین اسمبلی نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا۔

بی این پی کے احتجاج کے باعث حکومت میں شمولیت کے حوالے سے ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا جس پر وزیراعظم شہبازشریف نے سردار اختر مینگل کو منانے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے چاغی واقعہ پر انکوائری کمیشن کے قیام تک کوئی عہدہ لینے اسے انکار کردیا تھا۔

ڈرائیور حمیداللہ 15 اپریل کو نوکنڈی کے علاقے ڈھک میں پاکستان افغانستان سرحد کے قریب فائرنگ کے مبینہ واقعے میں ہلاک ہوگئے تھے جس کے خلاف سرحد سے سمگلنگ کرنے والے ڈرائیوروں اور شہریوں نے نوکنڈی میں احتجاج کیا تھا۔

نوکنڈی میں احتجاج کے دوران فائرنگ سے آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ تحصیل چاگئے میں شہریوں نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کیمپ کے باہر احتجاج اور پتھراؤ کیا تھا۔ اس واقعے میں مزید چھ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

سربراہ بی این پی سرداراخترمینگل نے وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہونے کے حوالے سے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم  نے کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی بلوچوں کا خون بہایا گیا ہے جو ابھی تک خشک نہیں ہوا۔‘

تازہ ترین صورتحال کے مطابق چاغی کے واقعے کے حوالے سے انکوائری کمیشن کے قیام کے اعلان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف سے بی این پی کے چیئرمین سردار اختر مینگل نے جمعرات کے روز ملاقات کی تھی۔

وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق ملاقات میں وفاقی وزرا رانا ثنااللہ اور خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے۔ ملاقات میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سردار اختر مینگل نے وزیراعظم کے بلوچستان کی ترقی کو حکومت کی ترجیحات میں شامل کرنے کے اقدام کا خیر مقدم کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بلوچستان نہ صرف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلکہ بلوچ افرادی قوت ملک کا قیمتی اثاثہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر بلوچستان کی ترقی کے لیے اقدامات اٹھا کر بلوچ نوجوانوں کی قومی دھارے میں شمولیت یقینی بنائے گی۔

ادھر بلوچستان حکومت نے چاغی کے واقعے پر 19 اپریل کو گریڈ 21 کے سینیئر ترین افسر اور سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو ارشد مجید پر مشتمل ٹریبونل آف انکوائری قائم کردی ہے۔

بلوچستان ٹر یبیونلز آف انکوائری آرڈننس 1968 کے تحت قائم یہ ٹریبونل 14 اور 18 اپریل کو ضلع چاغی میں رونما ہو نے والے فائرنگ کے واقعات کے تمام پہلوؤں اور محرکات کا جائزہ لے کر واقعات کی زمہ داری کا تعین کرے گا۔

ٹریبیونل مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیےاپنی سفارشات بھی مرتب کرے گا۔ ٹریبیونل آف انکوائری 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرنے کا پابند ہو گا۔

ممبر قومی اسمبلی اور بی این پی کے رہنما محمد ہاشم نوتیزئی نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور ان کے دوسرے ممبر قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ وفاقی وزرا کے عہدوں کا حلف لیں گے۔

ہاشم نوتیزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چاغی واقعہ اور ہمارے مطالبات کے حوالے سے وفاقی حکومت کے ساتھ مثبت بات چیت ہوئی۔ جس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہماری جماعت کی پالیسی واضح ہے۔ ہم نے چاغی واقعے کے خلاف اسمبلی میں احتجاج کیا اور واک آوٹ بھی کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں امن وامان کی صورتحال اسی وقت بہتر ہوسکتی ہے۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ عوام کا تعاون شامل ہو۔ پرتشدد واقعات مسائل میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے گذشتہ روز کےاجلاس کے دوران چاغی کے واقعے پر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی ہے جس نے منگل کو چاغی کا دورہ کیا تھا۔

عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ’اگر جے آئی ٹی کی انکوائری سے مطئمن نہیں ہوئے تو ہم جوڈیشنل انکوائری کروائیں گے۔ واقعہ بہت افسوسناک ہے۔ کوشش ہے کہ اس پرجلد فیصلہ آجائے زخمیوں کو اگر یہان علاج ممکن نہیں تو انہیں کراچی بھجوادیا جائے۔ ہلاک ڈرائیور کے لواحقین کو بھی 30 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔‘

نوکنڈی واقعے کے خلاف ضلع چاغی میں شٹرڈاؤن ہڑتال اور مظاہرے کیے گیے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے کال پر 20 اپریل کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئی اور مظاہرے کیے گئے۔

احتجاج کا سلسلہ دو روز جاری رہا اور کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام ڈگری کالج کوئٹہ سے بلوچستان یونیورسٹی تک ریلی نکالی گئی اور چاغی دالبندین میں پرامن مظاہرین پر فائرنگ اور ڈرائیور حمید اللہ کی ہلاکت کے خلاف نعرے بازی کی۔

ہاشم نوتیزئی

وفاقی کابینہ میں شامل ہونے والے ممبر قومی اسمبلی اور بی این پی کے رہنما محمد ہاشم نوتیزئی کا تعلق ضلع چاغی سے ہی ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مرکزی ہائی سکول دالبندین سے حاصل کی۔ جبکہ بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔

ہاشم نوتیزئی 2002 میں یونین کونسل چلغازئی کے ناظم بنے اور 2003 میں تحصیل ناظم دالبندین رہے۔ جبکہ 2005 میں ضلعی ناظم چاغی کے عہدے پر فائز رہے۔

ہاشم نوتیزئی نے سیاست کی ابتدا جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) سے کی تھی جس کے سربراہ نواب اکبر خان بگٹی تھے۔ وہ 15 سال تک اسی جماعت کا حصہ رہے۔

انہوں نے 2013 میں جے ڈبلیو پی کو چھوڑ کر بی این پی میں شمولیت اختیار کی اور 2018 کے الیکشن میں این اے 268 سے بی این پی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔

یاد رہے کہ 2018 میں ہی این اے 268 پر نیا حلقہ بنایا گیا۔ جو چاغی، خاران اور نوشکی پر مشتمل ہے۔ یہاں سے پہلے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی بھی ہاشم نوتیزئی ہیں۔

محمد ہاشم نوتیزئی جب ضلعی ناظم تھے تو انہوں نے علاقے کے لیے 10 کروڑ کے فنڈ سے ترقیاتی کام کروائے تھے۔ جن میں پریس کلب دالبندین کی عمارت بھی شامل ہے۔

محمد ہاشم نوتیزئی کو وزیرمملکت برائے توانائی کا قلمدان دیا جارہا ہے۔

آغا حسن بلوچ

بی این پی کے دوسرے رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ جو جماعت کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات بھی ہیں۔ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں این اے 266 کوئٹہ تھری سے کامیابی حاصل کی تھی۔

ان کا تعلق وکالت کے شعبے سے ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ آغا حسن نے ابتدائی سیاست بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) سے کی اور بعد میں بی این پی شامل ہوئے۔

بی این پی میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے آغا حسن ایک متحرک رہنما ہیں۔ انہوں نے سیاست کے دوران جیل بھی کاٹی ہے۔  وہ جماعت کے سربراہ سردار اختر مینگل کے قریبی رفقا میں شامل ہیں۔

آغا حسن نے اس سے قبل بی این پی کے ٹکٹ پر 2013 میں بھی کوئٹہ چاغی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

وفاقی کابینہ میں ان کو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان دیا جارہا ہے۔

بی این پی کے وفاق سے مطالبات میں کوئٹہ چمن موٹروے، ساحل بلوچستان سے غیر قانونی ماہری گیری کی روک تھام، صوبے کے سرحد علاقوں میں تجارت کی بحالی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان