ماہرین فلکیات کو ’چکرا‘ دینے والا ریڈیو سگنل

سائنس دانوں کو ایک نیا تیز رفتار ریڈیو سگنل ملا ہے جو ایک عجیب اور غیر متوقع مقام سے زمین پر آیا ہے۔

18 مئی، 2022 کو چلی کے اٹاکاما صحرا میں ایک ریڈیو ٹیلی سکوپ کا انٹینا نظر آ رہا ہے (اے ایف پی)

سائنس دانوں کو خلا سے ایک نیا تیز رفتار ریڈیو سگنل ملا ہے جو ایک عجیب اور غیر متوقع مقام سے زمین پر آیا ہے۔

یہ اس نوعیت کے سگنل کی دوسری مثال ہے اور اس سے نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ دراصل وہ سگنل کیا ہیں اور کائنات کو سمجھنے کے لیے ان کا استعمال کیسے کیا جاسکتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئی دریافت ہونے والی اس چیز پر بار بار توانائی کے دھماکے ہو رہے ہیں۔

یہ پہلے تیز رفتار ریڈیو برسٹ یا ایف آر بی کی طرح لگتا ہے، جس کے محل وقوع کا پتا چلا تھا لیکن بصورت دیگر بہت سی مثالوں سے مختلف ہے۔

تیز رفتار ریڈیو برسٹس(ریڈیائی لہروں کے چھوٹے لیکن تیزی سے آگے بڑھنے والے سگنل) توانائی کے بہت شدید، بہت مختصر دھماکے ہیں جو خلا میں گہرائی سے ہمارے پاس آتے ہیں۔

ان کا پہلی بار 2007 میں پتہ چلا تھا اور اس کے بعد سائنس دانوں کو ایسے درجنوں ملے۔

اس وسیع کیٹلاگ کی مدد سے محققین یہ سمجھنے کی کوشش کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں کہ وہ سگنل کہاں سے آ رہے ہیں، اگرچہ ان کا ماخذ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ 

محققین کی ایک تجویز کے مطابق بلیک ہولز سے لے کر ایلین ٹیکنالوجی تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ غالباً سب سے زیادہ امکانی وضاحت ایک مقناطیس ہے، جو نیوٹرون ستارے کی ایک قسم ہے۔

حالیہ تحقیق میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ فاسٹ ریڈیو برسٹ( ایف آر بی) کی مختلف اقسام ہیں اور نئی دریافت ہونے والی شے سے اس دلیل کو مزید تقویت ملتی ہے۔  

محققین کے سوالات یہ ہیں کہ کیا وہ جو اس طرح اپنے سگنلز کو دہراتے ہیں وہ بنیادی طور پر دوسروں سے مختلف ہو سکتے ہیں۔

اس طرح کے برسٹس کی بڑھتی ہوئی معلوم تعداد کی وجہ سے سائنس دان انہیں کائنات کے دوسرے حصوں کا مطالعہ کرنے کے طریقے کے طور پر استعمال کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔

ان کا استعمال کہکشاؤں کے درمیان خلا کے مواد کی پیمائش کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

سگنلز کے خلا میں سفر کرنے کے طریقے کو دیکھ کرسائنس دان اس پراسرار مواد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جو ان کے ماخذ اور زمین کے درمیان  کائنات کے بیشتر حصے پر پھیلا ہوا ہے۔

تاہم سائنس دانوں کو سگنلز اور ان کے ماخذ کے بارے میں مفروضے بنانے چاہییں تاکہ انہیں صحیح طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ 

لیکن نیا تیز رفتار ریڈیو برسٹس اس تصویر کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ اگرچہ یہ کچھ طریقوں سے پہلے آنے  والے ریڈیو برسٹ کی طرح ہے، اس کی کہکشاں میں پھیلاؤ کی پیمائش بہت زیادہ ہے۔

اندازے کے مطابق یہ کہکشاں زمین سے تقریباً تین ارب نوری سال کے فاصلے پر ہونی چاہیے، لیکن یہ اس طرح پھیل رہا ہے جیسے یہ تین گنا دور کسی کہکشاں سے آ رہا ہو۔

مغربی ورجینیا یونیورسٹی کے گریجویٹ طالب علم کشیج اگروال کا کہنا ہے: ’اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ایف آر بی کے قریب بہت سا ایسا مواد موجود ہے جو کہکشاؤں کے درمیان گیس کی پیمائش کے لیے اسے استعمال کرنے کی کسی بھی کوشش کو الجھا دے گا۔

’اگر دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے تو پھرایف آر بی کائناتی پیمانہ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے قابل بھروسہ نہیں۔‘

اس نے برسٹس میں ایک اور معمے کا اضافہ کیا ہے جو 15 سال بعد اور اس طرح کی متعدد مثالوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین فلکیات کے لیے دلچسپ اور نیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دریافت ہونے والے نئے سگنلز اور ایف آر بی کے بارے میں مزید تحقیق سے اس معاملے کو تھوڑا سا حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ساتھ ہی حالیہ مقالات میں پوچھے گئے سوالات کا جواب بھی مل سکتا ہے۔

 سائنس دانوں کو امید ہے کہ وہ یہ بہتر طور پر یہ سمجھ لیں گے کہ بار بار اور کبھی کبھار آنے والے ایف آر بی میں کیا مختلف ہے، اور کیا وہ  مختلف عمر  والے ذرائع سے آ رہے ہیں یا وہ بالکل مختلف چیزیں ہیں۔

یہ نتائج دی نیچر ٹوڈے میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں 'ایک مستقل ریڈیو ماخذ سے وابستہ ایک بار پھر تیز ریڈیو برٹس' کے عنوان سے شائع کیے گئے ہیں۔

نئے ایف آر بی کو نمبر 20190520 بی دیا گیا ہے اور یہ جس کہکشاں سے آیا ہے وہ جے 160204.31−111718.5 ہے۔   

یہ 2019 میں چین کے پانچ سو میٹر اپرچر گول ریڈیو ٹیلی سکوپ یا فاسٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملا تھا اور اس کے بعد سے اس کی جانچ کے لیے مزید کام کیا گیا جس میں مختلف آلات کا استعمال ہوئے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس