تیز رفتار ہواؤں والا سیارہ دریافت جو ’پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا‘

جرمنی کی سائنس دان لیزا نورٹمن نے کہا: ’یہ ایسی چیز ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘

گیسوں سے بنے اس دیوقامت سیارے کو ڈبلیو اے ایس پی۔ 127 بی کا نام دیا گیا ہے، جو زمین سے پانچ سو نوری سال سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے (یورپین سدرن آبزرویٹری)

فلکیات دانوں نے کائنات میں پہلی مرتبہ ایسا دیوہیکل سیارہ دریافت کیا ہے، جہاں تیز رفتار ہوائیں چلتی ہیں۔

گیسوں سے بنے اس دیوقامت سیارے کو ڈبلیو اے ایس پی۔ 127 بی کا نام دیا گیا ہے، جو زمین سے پانچ سو نوری سال سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اپنے خطِ استوا کے گرد ایسی ہواؤں کا حامل ہے جو سیارے کی گردش کی رفتار سے چھ گنا زیادہ تیزی سے چلتی ہیں۔

یورپین سدرن آبزرویٹری کی ویری لارج ٹیلی سکوپ سے حاصل کردہ مشاہدات کے مطابق ان ہواؤں کی رفتار 33 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ (20 ہزار میل فی گھنٹہ) تک جا پہنچتی ہے۔

یونیورسٹی آف گوٹنگن، جرمنی کی سائنس دان لیزا نورٹمن نے کہا: ’یہ ایسی چیز ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس سیارے کی فضا کا ایک حصہ بہت تیز رفتاری سے ہماری طرف حرکت کر رہا ہے جب کہ دوسرا حصہ اتنی ہی رفتار سے ہم سے دور جا رہا ہے۔ یہ سگنل ہمیں دکھاتا ہے کہ سیارے کے خط استوا کے گرد ایک بہت تیز، سپرسونک، جیٹ ہوا موجود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ انتہائی تیز رفتار ہوائیں زمین پر ریکارڈ کی گئی تیز ترین ہواؤں سے 60 گنا زیادہ تیز ہیں۔ زمین پر اب تک کی تیز ترین ہوائیں 1999 میں امریکہ کی ریاست اوکلاہوما میں غیرمعمولی طور پر طاقتور سمندری طوفان ایف فائیو کے دوران دیکھی گئیں۔

یہاں تک کہ ہمارے نظام شمسی میں ریکارڈ کی گئی تیز ترین ہوائیں، جو نیپچون پر پائی گئی ہیں، ان کی رفتار بھی نسبتاً معتدل 18 سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

تاہم تازہ ترین دریافت کرنے والے ماہرینِ فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ ڈبلیو اے ایس پی۔ 127 بی سیارے پر تبدیل ہوتے رہنے والے موسمی حالات بھی موجود ہیں، کیوں کہ اس کے قطب زیادہ ٹھنڈے ہیں اور دن کے مختلف اوقات میں درجہ حرارت مختلف ہوتا ہے۔

چین کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر اور تحقیق کے شریک مصنف فئی یان نے کہا: ’یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سیارے پر پیچیدہ موسمی نمونے موجود ہیں، بالکل ہماری زمین اور نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی طرح۔‘

تحقیق کے دوسرے شریک مصنف ڈیوڈ کونٹ، جو جرمنی کی لڈوِگ میکسی میلیان یونیورسٹی میونخ سے وابستہ ہیں، کا کہنا تھا کہ ’ان ایگزوپلینٹس (نظام شمسی سے باہر کے سیاروں) کی حرکیات کو سمجھنا ہمیں ایسے عوامل کی جانچ میں مدد دیتا ہے، جیسے حرارت کی تقسیم اور کیمیائی تبدیلیاں۔ یہ ہماری سیاروں کی تشکیل کی سمجھ کو بہتر بناتا ہے اور ممکنہ طور پر ہمارے اپنے نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں روشنی ڈالتا ہے۔‘

یہ تحقیق، جس کا عنوان ’کرائریز پلس ٹرانسمیشن سپیکٹروسکوپی آف ڈبلیو اے ایس پی 127 بی‘ ہے، اس ہفتے جریدے ’آسٹرونومی اینڈ آسٹروفزکس‘ میں شائع ہوئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس