زمین پر تو روزانہ ہی مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، انسان پیدا ہوتے، مرتے رہتے ہیں، موسم بدلتے ہیں، سیاست اور سفارت بدل جاتی ہے، جغرافیہ تک مستقل نہیں رہتا۔ لیکن آسمان پر ستارے اور سیاروں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ مستقل رہتے ہیں اور ان میں کوئی رد و بدل نہیں ہوتا۔
ہمارے نظامِ شمسی کا شاید سب سے خوبصورت سیارہ زحل ہے۔ اس کے خوشنما حلقے کسی رنگین ہیٹ کے چھجے کی مانند سیارے کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں، لیکن 2025 میں یہ حلقے غائب ہو جائیں گے۔
گھبرائیے نہیں، اس سے آپ کے برج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا (برجوں کا ویسے بھی انسان کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا!)، نہ ہی یہ حلقے کسی فلکیاتی عمل کے تحت خلا میں تحلیل ہو جائیں گے۔
لیکن اس کے باوجود اگر آپ کسی طاقتور دوربین سے دیکھیں تو 2025 کے بیشتر حصے میں آپ کو یہ حلقے نظر نہیں آئیں گے۔
یہ حلقے، جن کی موٹائی چند میٹر سے چند سو میٹر تک ہے، دو لاکھ 82 ہزار کلومیٹر چوڑی شاہراہ بناتے ہیں، جو زحل کی چوڑائی سے دوگنا بڑی ہے۔
یہ حلقے ٹھوس نہیں ہیں، بلکہ برف اور پتھروں سے مل کر بنے ہوئے ہیں، جن کا حجم بڑے پتھروں سے لے کر ریت کے ذروں تک ہے۔ جب زحل سورج کے گرد اپنا 29 سالہ سفر مکمل کرتا ہے، تو اس کے جھکاؤ کی وجہ سے حلقے تقریباً آدھا وقت اوپر سے اور باقی آدھا وقت نیچے سے روشن ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ان دونوں کے درمیان ایسے دو لمحات آتے ہیں، جب یہ حلقے سورج کے بالکل برابر ہوتے ہیں اور دور سے دیکھنے والوں کو غائب نظر آتے ہیں۔
گیلیلیو گیلیلی وہ پہلے انسان تھے، جنہوں نے زحل کو دوربین کے ذریعے دیکھا۔ انہوں نے جب 1610 میں یہ حلقے دیکھے تو مبہوت رہ گئے۔
حلقوں کو دیکھ کر انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ سیارے کے مرکزی کرے کے دونوں طرف موجود عجیب ’کان‘ یا ’ہینڈل‘ دراصل دو علیحدہ اجسام ہیں۔
گیلیلیو کا خیال تھا کہ یہ تینوں حصے کبھی حرکت نہیں کرتے اور نہ ہی بدلتے ہیں۔ انہیں اس کے مستقل ہونے پر کوئی شک نہیں تھا۔
لیکن یہ شکل صرف دو سال برقرار رہی اور جب 1612 میں گلیلیو نے اپنی دوربین دوبارہ زحل پر مرکوز کی تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ ’ہینڈل‘ غائب ہو چکے تھے۔
اپنے ایک ہم عصر ماہر فلکیات کو لکھے گئے خط میں گیلیلیو نے سوال کیا: ’کیا زحل نے اپنے ہی بیٹوں کو نگل لیا؟‘
گیلیلیو نے اس غائب ہونے کے عمل کی اہمیت کو ٹھیک پہچان لیا تھا۔
زحل کا نام رومی دیوتا ’سیٹرنس‘ (Saturnus) کے نام پر رکھا گیا، جو زراعت کا دیوتا تھا اور اپنی درانتی کے ذریعے انسانوں کو بوائی اور کٹائی کا وقت سکھاتا تھا۔
زحل ہمیشہ دوہرے کردار کا حامل رہا ہے۔
دسمبر میں منایا جانے والا رومی تہوار سیٹرنیلیا (Saturnalia) امن اور زرخیزی کا پیامبر ہے اور اسے ضیافتوں اور رقص سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لارڈ آف مس رول سے بھی وابستہ رہا، جو سماجی درجہ بندی کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتا تھا۔ زحل ان دونوں کا مظہر تھا۔
سیٹرنیلیا کے دوران مالک خادموں کی خدمت کرتے تھے اور خادم مالکوں کو احکامات دیتے تھے۔ طاقت کی اس الٹ پھیر نے بہت سے رومیوں کو شدید پریشان کر دیا تھا۔
زحل نظم و ضبط کا بھی نمائندہ تھا اور الجھن کا بھی۔
یہ تضاد 1926 میں موسیقار گستاف کی دھن ’دا پلینٹس‘ میں بھی جھلکتا ہے، جہاں زحل کی دھیمی، منظم چال، جو ایک گھڑی کی ٹِک ٹِک کی طرح ہے، تیزی سے ٹرومبونز کی دہشت میں بدل جاتی ہے۔
1650 کی دہائی میں ماہرین فلکیات نے دریافت کیا کہ گیلیلیو کے ’ہینڈل‘ دراصل چپٹے حلقے ہیں۔ یہ حلقے برف کے ٹکڑوں، چاندوں، سیارچوں اور دم دار ستاروں کے باقیات پر مشتمل تھے، جو زحل کی زبردست کشش ثقل کے باعث ٹوٹ گئے تھے۔
1995 میں شائع ہونے والی کتاب ’دا رنگز آف سینٹرن‘ شاید سب سے اداس کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب برطانوی علاقے سفوک کے ساحل کے گرد ایک سفر کی کہانی ہے، جو ’کھنڈرات کے میدان‘، ’تباہی کے آثار،‘ ’ہوائی چکیوں کے ملبے،‘ اور ’ترک شدہ کشتیوں کی باقیات‘ کو بیان کرتی ہے۔
جب 2025 میں زحل کے حلقے غائب ہو جائیں گے تو وہ تواتر بھی ختم ہو جائے گا جسے گلیلیو نے سورج کے خاندان کے سب سے عجیب رکن میں دیکھا تھا۔
یونانی مفکر ہیراکلیٹس نے دوربینوں کے ایجاد ہونے سے کئی صدیوں پہلے کہا تھا: ’کائنات میں واحد مستقل چیز مسلسل ہونے والی تبدیلی ہے۔‘ علامہ اقبال نے اسی کو مصرعے میں ڈھالتے ہوئے کہا ؎
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں!
یہ تبدیلی کائناتی عمل ہے اور اسے قبول کرنا ضروری ہے۔