فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے کو ختم کرنے سے فائر بندی کو خطرہ ہو سکتا ہے: پاکستان

پاکستان نے یو این آر ڈبلیو اے کو ’لاکھوں فلسطینی مہاجرین کے لیے امید کی کرن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ فائر بندی کے مؤثر نفاذ، ضروری انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم 28 جنوری 2025 کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں یو این آر ڈبلیو اے کے بارے میں پاکستان کا موقف پیش کر رہے ہیں (منیر اکرم)

پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (یو این آر ڈبلیو اے) کے خاتمے کی اجازت دینا فائر بندی معاہدے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا اور غزہ کی بحالی اور سیاسی منتقلی کے کسی بھی امکان کو سبوتاژ کر دے گا۔

پاکستان نے یو این آر ڈبلیو اے کو ’لاکھوں فلسطینی مہاجرین کے لیے امید کی کرن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ فائر بندی کے مؤثر نفاذ، ضروری انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یو این آر ڈبلیو اے کے حوالے سے بدھ کو ہونے والے اجلاس کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اپنے بیان میں کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے کو نشانہ بنا کر، اسرائیل نہ صرف فلسطینی عوام کو دی جانے والی انسانی امداد کا ڈھانچہ ختم کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کی شناخت اور ان کے جائز حقوق کو بھی مٹانے کے درپے ہے، تاکہ انصاف اور امن کے لیے ان کی جدوجہد کو کمزور کیا جا سکے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’یو این آر ڈبلیو اے کے وجود اور بقا کو آج شدید خطرہ لاحق ہے، خاص طور پر اس اسرائیلی قانون سازی کے نتیجے میں جو 28 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) میں منظور کی گئی تھی اور جس پر اگلے 48 گھنٹوں میں عملدرآمد متوقع ہے۔‘

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے کا وسیع نیٹ ورک، جس میں سکول، صحت عامہ کی سہولیات اور انسانی امدادی خدمات شامل ہیں، اپنی نوعیت میں بے مثال اور ناگزیر ہے۔ یہ ادارہ لاکھوں افراد کو زندگی بچانے والی مدد، ہزاروں بچوں کی تعلیم کی بحالی، اور لاکھوں فلسطینیوں کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستانی مندوب نے نشاندہی کی کہ یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی عائد کرنے کا اسرائیلی قانون بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے منشور اور 19 جولائی 2024 کو دیے گئے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے مشاورتی فیصلے کی صریح خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ادارے کو بند کرے، خاص طور پر مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں یو این آر ڈبلیو اے کے دفاتر کو۔

منیر اکرم نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ’اسرائیل کے اقدامات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں، جن میں یو این آر ڈبلیو اے کے مینڈیٹ کی تجدید کی گئی ہے۔‘

انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی نو دسمبر 2024 کی اس یادداشت کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے رکن ملک کی حیثیت سے اسرائیل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یو این آر ڈبلیو اے کے کام میں سہولت فراہم کرے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 (5) میں درج ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سفیر منیر اکرم نے اسرائیل کی جانب سے یو این آر ڈبلیو اے پر لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کولونا رپورٹ میں ان الزامات کی تصدیق نہیں ہوئی۔ اگر کوئی شکوک و شبہات ہیں تو ان کی مکمل اقوام متحدہ کی تحقیقات کے ذریعے وضاحت ہونی چاہیے۔‘

پاکستانی مندوب نے فائر بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس کے تمام مراحل مکمل طور پر نافذ کیے جائیں گے اور فائربندی مستقل شکل اختیار کرے گی، جس میں اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، غزہ کے بے گھر اور متاثرہ افراد کے لیے فوری اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی شامل ہیں۔

منیر اکرم نے کہا کہ ہمیں فائر بندی کے مکمل نفاذ، غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، اور متاثرہ و بے گھر فلسطینی عوام کو فوری اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی کی امید ہے۔ ہم نے اسرائیل کی جانب سے فائر بندی کے بعد حملے دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیوں کو بھی نوٹ کیا ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 79/81 قرارداد کا بھی خیرمقدم کیا، جس کے تحت جون 2025 میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ایک اعلیٰ سطح کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے گی، جس میں ’امید ہے کہ فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل پر اتفاق کیا جائے گا۔‘

سفیر اکرم نے دو ریاستی حل کے حصول کے لیے ایک جامع سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا ’ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیل اور آبادکاروں کے فلسطینیوں پر تشدد کو روکنے کے لیے تاحال کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔

’ہمیں غزہ اور مغربی کنارے میں امن برقرار رکھنا ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کو انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے میں مدد کرنی چاہیے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 (2024) میں تصور کیا گیا ہے، اور اس کے نفاذ کے لیے مناسب بین الاقوامی وسائل کو متحرک کرنا چاہیے۔‘

پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کا کہنا تھا ’ہمیں ان اقدامات کی مخالفت کرنی چاہیے جو فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور ریاستی تشخص کو ختم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بجائے، ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہییں جو دو ریاستی حل کو ناگزیر بنا دیں، بشمول ریاست فلسطین کو عالمی سطح پر تسلیم کرنا اور اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے اس کی جلد منظوری کو یقینی بنانا۔

انہوں نے کہا کہ ’دو ریاستی حل ہی سب سے مؤثر، قابلِ عمل اور منصفانہ فریم ورک ہے جو نہ صرف فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان، بلکہ عرب و مسلم دنیا کے ساتھ بھی امن کا ضامن بن سکتا ہے۔‘

منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان بطور رکن ’دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد‘ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان