مذاق رات اور شہباز کی اڑان

جس جن کو دو سال میں بوتل میں بند کیا گیا ہو، اس بوتل کے ڈھکن کو عقل سے عاری شخص ہی پھر کھولے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف 31 دسمبر، 2024 کو اسلام آباد میں ’اڑان پاکستان‘ منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (شہباز شریف/ فیس بک)

موسم جو بھی ہو اسلام آباد میں چہ مگوئیاں اور سرگوشیاں جاری و ساری رہتی ہیں۔

کچھ دوست مسکراہٹوں اور اترتے چہروں کو تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں تو کچھ دیواروں سے کان لگا کر، دروازوں کے اندر تانک جھانک کر کے، مائیک پکڑ کر ایوانوں میں گھوم پھر کر کوہسار مارکیٹ سے کالج روڈ کے کیفوں میں بیٹھ کر دائیں بائیں سن کر کوئی ایک لائن نکال کر اس سے بڑی خبر بنا لیتے ہیں۔

ایک مخلوق ایسی بھی ہے جو رات کو خواب میں جو آئے اسے اپنی خواہشات میں لپیٹ کر خبر/ تجزیہ بنا کر اتنا پھیلا دیتی ہے کہ اصل صحافیوں کو باقاعدہ تحقیق کر کے یہ خبر غلط ثابت کرنی پڑتی ہے۔

اس صحافی کو جواباً چھ سات ہزار گالیاں پڑ جاتی ہیں لیکن وہ خبر جھوٹ ہونے کے باوجود سفر جاری رکھتی ہے۔

ابھی بھی آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ 26 نومبر کو اسلام آباد میں ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہوا۔

بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے کہ ڈس انفارمیشن صحافت کے لیے کتنا بڑا چیلنج بن چکی ہے اور اس سے نمٹنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اصل موضوع پر آنے سے پہلے لمبی تمہید باندھنی ضروری اس لیے تھی کہ مذاکرات سے لے کر عمران خان کی رہائی، بنی گالہ منتقلی اور شہباز شریف حکومت کے خاتمے کے ہزاروں قصے کہانیوں سے آپ کو یوٹیوب بھرا ملے گا۔

کوئی عمران خان کو بنی گالہ منتقل کر چکا ہے تو کوئی دو ہفتوں میں رہائی کے دعوے کر رہا ہے، کوئی اسٹیبلشمنٹ میں شدید اختلافات اور اس کے نتیجے میں شہباز شریف کو گھر بھجوانے کی خبر پر لاکھوں ویوز سمیٹ چکا ہے۔

کوئی مذاکرات کو امریکی دباؤ کا نتیجہ اور اسی کے نتیجے میں پاکستان کے گھٹنے ٹیکنے کی پیش گوئیاں کر چکا ہے۔

اب ان تمام چیزوں کو ایک ایک کر کے ڈسکس کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔

صحافی کا کام کھوج لگانا، نکتوں کو تلاش کرنا، پھر انہیں آپس میں جوڑ کر خبر اور تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔

جہاں تک حکومت اور پاکستان تحریک انصاف میں مذاکرات کی بات ہے، تو میرے نزدیک یہ حکومت صرف دنیا کو اپنا ایک جمہوری چہرہ اور رویہ دونوں دکھانا چاہتی تھی کہ دیکھیں ہم نے ایسی اپوزیشن کو انگیج کیا جو ہمارا وجود ہی تسلیم نہیں کرتی۔

حکومت ان مذاکرات سے جو حاصل کرنا چاہتی تھی کر چکی، ان کا واحد مقصد ظاہری ’آپٹکس‘ سیٹ کرنا تھا۔

اس کے بعد صرف گڈے گڈی کا کھیل ہی ہو رہا ہے۔ ایک اعلیٰ ترین ذریعے سے ازراہ مذاق استفسار کیا کہ خان کو چھڑوانے کے لیے آپ مذاکرات کیوں کروا رہے ہیں، ویسے ہی چھوڑ دیں؟

قہقہے کے ساتھ جواب ملا آج کل جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ مذاکرات نہیں ’مذاق رات‘ ہیں اور آپ میڈیا بھی ’زیادہ دھیان شہباز کی اڑان پر دیں۔‘

پھر ازرائے مذاق کہا کہ ان کو سنا ہے فارغ کروایا جا رہا ہے؟ جواب ملا وزیراعظم کو صرف عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا جا سکتا ہے، یا پھر نئے انتخابات ہوں اور نیا وزیراعظم آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئندہ چار سال تک انتخابات نہیں ہو رہے۔ اس وقت تمام نظریں معاشی اڑان پر ہیں، ترجیحی لسٹ میں ’مذاق رات‘ اور ’میڈیا گوسپ‘ پر کوئی توجہ نہیں۔

اس گفتگو سے کچھ بھی اخذ کرنا قارئین پر منحصر ہے لیکن بظاہر جو نظر آرہا ہے ویسا کچھ ہونے نہیں جا رہا۔

ممکنات کی بات کی جائے تو کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے، خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں۔

لیکن ان سطور کے تحریر ہونے تک سٹیٹس کو برقرار ہے، سیٹ اپ یہی چلے گا جب تک ’شہباز کی بے مثال اڑان اسی طرح رہی اور مریم دن میں دو دو منصوبوں کے افتتاح کرتی رہیں۔‘

اس وقت تحریک انصاف یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح عمران خان کو ہاؤس اریسٹ صحیح لیکن بنی گالہ منتقل کروایا جائے، یا کوئی بھی ایسا آپشن کہ کم از کم وہ اڈیالہ سے نکل آئیں۔

بشری بیگم سے لے کر خود عمران خان تک اس پر راضی بھی ہیں اور اس خواہش کا اظہار کیا بھی گیا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو یقیناً عمران خان کو بہت بڑا سیاسی نقصان ہو گا۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کو اس سے زیادہ کوئی ریلیف ملے گا اور وہ باہر آ کر جلسے جلوس شروع کر کے احتجاج کو لیڈ کریں گے تو مرحلہ ابھی دور بین میں دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔

آخری بات اس پر ختم ہوئی کہ ’جس جن کو دو سال میں بوتل میں بند کیا ہو، اس بوتل کے ڈھکن کو عقل سے عاری شخص ہی پھر کھولے گا۔‘

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ