زمینی حقائق پر مبنی افغان پالیسی کی ضرورت

پاکستان کے لیے سب سے معقول حکمت عملی یہ ہے کہ وہ وسیع تر روابط پر مبنی سیاسی حکمت عملی تیار کرے تاکہ افغانستان کے ساتھ کثیر الجہتی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔

23 فروری، 2023 کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان طورخم سرحد پر طورخم گیٹ بند ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات پیچیدہ صورت حال کا شکار ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے کالعدم گروپوں، جن کے سرحد پار روابط ہیں، کی بڑھتی ہوئی ’دہشت گردی‘ ہمارے سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی اموات کا سبب بن رہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان سے ٹی ٹی پی یا بی ایل اے کے خلاف مطلوبہ ردعمل حاصل کرنے میں ناکامی ہمارے تعلقات میں خلیج پیدا کر رہی ہے۔

اس مسئلے کا حل انسداد دہشت گردی کے مضبوط ملکی میکنزم کو مزید بہتر بنانے میں ہے جو دہشت گرد حملوں کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ساتھ ہی افغانستان کے ساتھ تعلقات کو دانش مندانہ اور تدبر سے سنبھالنے کی حکمت عملی اپنانے میں ہے، چاہے مسائل برقرار ہی کیوں نہ رہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی سب سے بنیادی حقیقت ہمیشہ 2600 کلومیٹر طویل سرحد رہی ہے۔

سرحدی پٹی میں پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ آباد ہیں جن کے درمیان قریبی سماجی، مذہبی، نسلی اور معاشی انحصار موجود ہے۔

لہٰذا تاریخی طور پر اس غیر محفوظ سرحد کی نوعیت نے ہمیشہ لوگوں کی نقل و حرکت اور تجارت کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کی ضرورت کو جنم دیا تاکہ باہمی امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ 1947 سے لے کر 1970 کی دہائی کے آخر تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان کچھ معاملات پر اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے مجموعی تعلقات اور خصوصاً عوامی سطح پر رابطے ہموار رہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے، جو ہمارے مشرقی سرحد پر لڑی گئیں، دوران پاکستان کو مغربی سرحد سے کوئی سکیورٹی خطرہ نہیں تھا اور سرحدی علاقے میں کوئی بدامنی نہیں تھی جہاں پاکستانی فوج تعینات نہیں تھی۔

گذشتہ پانچ دہائیوں میں افغانستان میں ہونے والی بیرونی فوجی مداخلتیں نہ صرف افغانستان کے اندر موجود توازن کو بگاڑنے کا باعث بنیں، بلکہ پاکستان افغانستان سرحدی علاقے کے استحکام کو بھی متاثر کیا۔

1980 کی دہائی میں سوویت قبضے کے دوران طویل جنگوں اور 2001 سے 2021 تک افغانستان میں امریکہ نیٹو فورسز کی موجودگی کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان افغانستان سرحدی علاقہ شدت پسندی، بغاوت، علاقائی اور عالمی دہشت گرد گروہوں اور پراکسی جنگوں کا مرکز بن گیا۔

دونوں ریاستوں کے درمیان اعتماد کم ہوتا گیا اور اس کی جگہ ایک دوسرے پر الزام تراشی، شکایات اور انگلی اٹھانے کی روایت نے لے لی۔

اس عمل میں، سرحد پار دونوں عوام کے درمیان سماجی و معاشی تعلقات بھی بری طرح متاثر ہوئے۔

اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا نے افغانستان میں پانچ دہائیوں پر محیط لڑائی کا خاتمہ کیا۔

گذشتہ ساڑھے تین سال میں افغان عبوری حکومت نے افغانستان پر اپنا کنٹرول مستحکم کر لیا ہے اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک، علاقائی ممالک اور عالمی طاقتیں اس حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں حالاں کہ بین الاقوامی سطح پر اس حکومت کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

تاہم پاکستان کی یہ توقعات کہ آج کا افغانستان داعش، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے گروپوں کی دہشت گردی کے خطرات کم کرنے کے مواقع فراہم کرے گا اور باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب بڑھے گا، پوری نہیں ہو سکیں۔

دونوں چیلنج وقت کے ساتھ زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں اثر و رسوخ کے چھوٹے چھوٹے گڑھ رکھتی ہے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور سی پیک جیسے سٹریٹیجک منصوبوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان طالبان کے ساتھ روابط کے باعث وہ افغان سرزمین پر بھی موجودگی رکھتی ہے۔

ٹی ٹی پی کی صلاحیتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اسے یقیناً ان عناصر سے مالی معاونت مل رہی ہے جو پاکستان افغانستان قریبی تعلقات کے مخالف ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے ان کے رہنماؤں کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں جس سے ریاستی سطح پر غیر مؤثر رابطے کے دائمی مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ویزوں، پناہ گزینوں اور تجارت  کو دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی غیر مؤثر ثابت ہوئی ہے اور سرحد پار فوجی حملوں نے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں کی سکیورٹی پر مبنی سوچ سے ہٹ کر سیاسی حکمت عملی اپنائی جائے۔

افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بصیرت افروز حکمت عملی اپناتے ہوئے تعلقات کے مکمل پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، نہ کہ صرف مخصوص سکیورٹی پہلوؤں تک محدود رہنا چاہیے۔

افغانستان کے ساتھ تعلقات کو خودمختار برابری، باہمی احترام اور ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کے اصولوں پر مبنی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے مضبوط کرنا ضروری ہے۔

جامع رابطے کے ایجنڈے کا مقصد تجارت اور عوام کے درمیان رابطوں کے مواقع کو فروغ دینا ہونا چاہیے جب کہ افغانستان کے ذریعے جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان علاقائی رابطے کے لیے دلچسپی رکھنے والے ممالک کے ساتھ شراکت داری کو آگے بڑھانا بھی اہم ہے۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے ساتھ مستحکم تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ اگر بات چیت کو سیاسی اور اقتصادی ایجنڈے کی روشنی میں آگے بڑھایا جائے تو یہ مثبت پیش رفت کا سبب بن سکتی ہے۔ ریاستی سطح پر تعلقات اور سیاسی قیادت کے درمیان براہ راست رابطہ دوطرفہ تعلقات کو استحکام کی جانب لے جانے کے لیے ناگزیر ہے۔

علاقائی رابطے کے منصوبے دونوں ممالک کے لیے اقتصادی انحصار کو مزید گہرا کرتے ہوئے باہمی فوائد کے بے پناہ امکانات رکھتے ہیں۔

اس ضمن میں سرحد پار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جیسے کوئٹہ قندھار ریلوے لائن، پشاور جلال آباد ریلوے لائن اور طویل سرحد پر نئے تجارتی راستے کھولنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔

خطے کے کئی ممالک، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، چین، روس، ایران، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان اور جاپان شامل ہیں، افغانستان اور پاکستان کے ساتھ ٹرانس-افغان بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں میں شراکت داری کے خواہاں ہیں۔

ان میں سے کئی ممالک، اختلافات اور ایک حد میں رہنے کے باوجود افغان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دے رہے ہیں۔

مغربی ممالک، بشمول امریکہ، یورپی یونین اور ان کے اتحادی بھی افغانستان میں استحکام کے لیے سیاسی حکمت عملی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

حال ہی میں انڈیا، جو گذشتہ دو دہائیوں سے افغان طالبان کو ’دہشت گرد‘ کہتا رہا ہے، اب افغان عبوری حکومت کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کے ارادے ظاہر کر رہا ہے۔

اس صورت حال میں پاکستان کے لیے سب سے معقول حکمت عملی یہ ہے کہ وہ وسیع تر روابط کی سیاسی حکمت عملی تیار کرے تاکہ افغانستان کے ساتھ کثیر جہتی تعاون کو مزید گہرا کیا جا سکے۔

امید ہے کہ اس سے پاکستان کو اپنے مثبت اثر و رسوخ کو مہارت کے ساتھ استعمال کرنے کے مواقع ملیں گے تاکہ سلامتی، انسداد دہشت گردی، اور سرحدی انتظام کے شعبوں میں افغان تعاون حاصل کیا جا سکے اور اقتصادی انضمام کے مشترکہ مفادات کو فروغ دیا جا سکے۔

مضمون نگار افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ڈائریکٹر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ