گلگت بلتستان کی عوام نے ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد غیر مشروط طور پر پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ لیکن سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس خطے کے عوام تاحال اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گذشتہ ہفتے پوسٹ بجٹ تقریر میں اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آئندہ مالی سال محصولات کی وصولی کا ہدف 7004 ارب روپے رکھا گیا ہے، جس میں سے 4000 ارب روپے صوبوں میں تقسیم کرنے اور ڈیٹ سروسنگ کی رقوم نکالنے کے بعد وفاق کے پاس پیچھے بمشکل 1000 ارب روپے رہ جاتے ہیں جس میں سے حکومت کے انتظامی امور، سبسڈیز، یوٹیلٹی سٹورز، پیسکو و دیگر کی ادائیگی سمیت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی دینے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے گندم سبسڈی کو آٹھ ارب سے چار ارب روپے جبکہ ریگولر بجٹ کو 47 ارب سے 45 ارب کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ میں بھی 50 فیصد کمی کی گئی جس کے بعد ترقیاتی بجٹ 23 ارب روپے پر آگیا۔ بعد ازاں سیاسی دباؤ کے نتیجے میں وفاقی بجٹ میں گلگت بلتستان کا ریگولر بجٹ دوبارہ سے 47 ارب جبکہ گندم سبسڈی کو بھی آٹھ ارب کی سطح پر بحال کردیا گیا۔
ترقیاتی بجٹ کی کٹوتی پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید سے جب ہماری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے ساتھ اگر دوسرے صوبوں کی طرح برابری کا سلوک برتا جائے تو قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) میں اس صوبے کا حصہ 137 ارب روپے بنتا ہے۔ گلگت بلتستان کو این ایف سی ایوارڈ سے نہ صرف محروم رکھا گیا بلکہ ایک ایسے وقت میں جب لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس خطے کا رُخ کررہے تھے اس خطے کی ترقی کے سفر پر قدغن لگا دی گئی۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کا کہنا تھا کہ سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے رواں سال مارچ میں صوبے کے لیے پانچ ارب جبکہ ان کی جانب سے نئے مالیاتی سال کے لیے 68 سے 70 ارب روپے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حال ہی میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ ہونے والی ملاقات پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ وہ ہمارے لیے کوشش کریں گے۔ لیکن وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ملاقات سے مطمئن نہیں دکھائی دیے۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ حکومت میں آئے تو ریگولر بجٹ 32 ارب روپے تھا جس میں سے 29 سے 30 ارب روپے صرف تنخواہوں کی مد میں خرچ کیے گئے۔ بعد میں اسے بڑھا کر 47 ارب روپے کیا گیا۔ دوسری طرف ترقیاتی بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے صوبے میں چھ سے سات اہم منصوبے مکمل طور پر رُک جائیں گے۔
وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے بتایا کہ چونکہ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کا فیصلہ ان کی کابینہ مسترد کرچکی ہے لہذا اگر وفاقی حکومت نے ترقیاتی بجٹ پچھلی سطح پر بحال نہ کیا تو وفاق سخت ردعمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔
محرومی کے شکار اس خطے کو جہاں بجٹ میں اپنا جائز حصہ نہیں ملا وہیں حکومتی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ صوبے میں دو ماہ گزر جانے کے باوجود تاحال گورنر کی تقرری ہوسکی نہ ہی اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نظر آئی۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے پی ڈی ایم کا وہی وطیرہ ہے جو پنجاب اور وفاق میں نظر آیا۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بھی وزرا کے ووٹ خریدنے کے لیے بھاری رقوم کی پیشکش کی جارہی ہے۔
گلگت بلتستان کے مسائل ایک بار پھر سیاسی رسہ کشی کی بھینٹ چڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسے میں جہاں عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، بیروزگاری سے پریشان ہیں وہیں صوبے کے لیے آئینی حیثیت کے حصول کا دیرینہ خواب بھی ماند پڑتا جارہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔