حالیہ مہینوں میں دنیا کی معیشت تباہی سے گزر رہی ہے جس سے عالمی ترقی بھی متاثر ہوئی ہے لیکن عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کیا کہ صورت حال بدترین نہج پر پہنچ سکتی ہے۔
آئی ایم کے مطابق عالمی شرح نمو گذشتہ پانچ دہائیوں کی کم ترین سطح تک گر سکتی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے آؤٹ لک کے مطابق اگر عالمی معیشت کو یہ سات خطرات لاحق رہے تو 2023 میں عالمی نمو محض 2.0 فیصد تک رہ جائے گی۔
یوکرین جنگ
یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں یورپ کو گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل سے یورپ کو روسی پائپ کے ذریعے گیس کی ترسیل گذشتہ سال کی سطح کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔
یورپی یونین کی حکومتوں نے ماسکو پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنگ کے بعد مغرب کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے جواب میں توانائی کی رسد کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
روس کی گیس پر انحصار کرنے والے یورپ کی پریشانی جلد ختم ہونے کی توقع نہیں ہے جب کہ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ گیس کی قلت کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔
اس حوالے سے بدترین حالات کیا ہو سکتے ہیں؟ 2022 میں (روسی گیس کی) برآمدات کی مکمل بندش سے دنیا بھر میں افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یورپ میں توانائی کے استعمال کو محدود کرنا پڑ سکتا ہے جس سے نمو میں کمی ہو گی اور اس کے منفی اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
مہنگائی میں اضافہ
موجودہ وقت میں پریشان کن صورت حال کی ہر وجہ یوکرین جنگ کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ سپلائی میں رکاوٹ نے خوراک اور توانائی کی قیمتوں کو پر لگا دیے ہیں جس سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے اور حکومتوں کو ایندھن کی طلب پوری کرنے کے لیے قرض لینے پر مجبور کر دیا ہے۔
ایک بدترین صورت حال میں مرکزی بینک کے اقدامات کساد بازاری کو ہوا دے سکتے ہیں یہاں تک کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ایک ایسا منظر نامہ تخلیق کر سکتی ہیں جسے ماہرین معاشی جمود کا نام دیتے ہیں۔
کئی معیشتوں میں کم بے روزگاری اجرت میں اضافے کا بھی باعث بنے گی جو کارکنوں کو زیادہ تنخواہوں کا مطالبہ کرنے پر اکسا سکتی ہیں۔
اگر پالیسی ساز صورتحال کو تدبر سے سنبھالنے میں ناکام رہے تو اس سے مزید پیچیدگیاں جنم لیں گی۔
تاہم مہنگائی 2024 کے آخر تک کرونا وبا سے پہلے کی سطح پر واپس آنے کی توقع ہے۔
مرکزی بینکوں کا اوور شوٹ
مرکزی بینک تیزی سے شرح سود میں اضافہ کرکے معاشی سکڑاؤ کو روکنے کے لیے ایک نازک توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر وہ غلطی کرتے ہیں تو کیا ہوتا؟
کساد بازاری اور اس کا امکان بڑھ رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ 2023 میں کساد بازاری کا خطرہ خاص طور پر واضح ہے۔
رپورٹ خبردار کیا گیا ہے کہ ’متعدد معیشتوں میں ترقی کی شرح کم ہونے کی توقع ہے۔ کرونا وبا کے دوران جمع ہونے والی گھریلو بچت میں کمی واقع ہو جائے گی اور یہاں تک کہ چھوٹے جھٹکے بھی معیشتوں کے ٹھپ ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘
قرض کا وبال
ترقی یافتہ معیشتوں میں قرض کی صورت حال مزید خراب ہونے کی توقع ہے کیونکہ قرض لینے والوں کو بڑھتی ہوئی شرح سود اور کم ترقی کا سامنا ہے لیکن ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر معیشتوں میں قرض کی پریشانی خاص طور پر تشویشناک ہے۔
جیسا کہ ترقی یافتہ معیشتیں افراط زر سے لڑنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتی ہیں جس سے قرضے کی لاگت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اس سے حکومتوں پر دباؤ پڑے گا اور وہ اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہو جائیں گی جبکہ اسی وقت ان کی ملکی کرنسیوں کی قدر میں کمی آئے گی کیونکہ ان ممالک سے سرمایہ سیلاب کی طرح نکل جائے گا۔
آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ 60 فیصد کم آمدنی والے ممالک پہلے ہی قرضوں کے وبال میں مبتلا ہیں یا انہیں اس کا زیادہ خطرہ ہے۔
چین کی مشکلات
چین کی کووِڈ وبا کے پیشِ نظر پیش رفت، جس میں مالی معاونت اور بیجنگ کی صفر کووِڈ حکمتِ عملی پر دوبارہ کام کرنا شامل ہے، سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں امید کی کچھ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر وبا پھیلنے کے امکان کا مطلب ہے کہ وسیع پیمانے پر لاک ڈاؤن ایک حقیقی خطرہ بنے ہوئے ہیں جس کے مالی اثرات وسیع تر عالمی معیشت پر پڑ سکتے ہیں۔
اس دوران چین کے مشکل دور سے گزرنے والے پراپرٹی سیکٹر میں جلد ہی کسی بھی وقت بہتری کی توقع نہیں ہے جس سے ’اچانک بڑے بحران‘ کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔
خوراک اور توانائی کی قیمتوں سے بدامنی کا خطرہ
خوراک اور توانائی روزمرہ کی زندگی کے لیے سب سے بنیادی ضروریات ہیں اور ان کی قیمتوں میں واضح اضافے سے نہ صرف لوگوں کے بجٹ بلکہ سماجی استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ خوراک اور توانائی کی زیادہ قیمتیں بدامنی کا باعث بن سکتی ہیں۔
خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بننے والے عوامل میں سب سے اہم روس کی جانب سے یوکرینی اناج کی برآمدات پر پابندی ہے۔
بکھری ہوئی معیشت
یوکرین میں جنگ کے اثرات بہت دور رس ہیں۔ واضح اقتصادی عوامل سے ہٹ کر بھی اس تنازع نے عالمی سیاسی خیلج کو گہرا اور نئے جیو پولیٹکل بلاکس کو جنم دیا ہے جو اب مل کر آسانی سے کام نہیں کر سکتے۔
اس کا مطلب ہے کہ ٹیکنالوجی کے معیارات، سرحد پار ادائیگی اور ریزرو کرنسی کے نظام بدل جائیں گے۔
عالمی بلاکس کے درمیان کثیرالجہتی تعاون میں کمی کا نتیجہ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے اہم کام میں رکاوٹ کا باعث بھی بن سکتا ہے جس سے خوراک کا بحران مزید بدتر ہو جائے گا۔