پاکستان میں گذشتہ مہینے کے قیمتوں کے مقابلے میں اب برائلر مرغی کے گوشت کے نرخ میں 40 سے 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
رمضان کے دوران مرغی کے گوشت کی فی کلو قیمت 400۔500 روپے تک پہنچ گئی تھی، جب کہ ایک بڑے سائز کی مرغی کے گوشت کے لیے تقریباً 1400 روپے ادا کرنا پڑتے تھے۔
رمضان کے بعد قیمتیں کم ہونا شروع ہوئیں اور آج ملک کے اکثر شہروں میں فی کلو زندہ مرغی کا نرخ 290 سے 330 روپے تک آگیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر پشاور کے دفتر سے جاری زندہ مرغی کی آج (بدھ) کی قیمت فی کلو 330 روپے ہے جبکہ لاہور میں یہی نرخ 310 روپے تک ہے۔
اسی طرح کوئٹہ میں بھی فی کلو زندہ مرغی کا نرخ 300 روپے ہے، جب کہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی فی کلو مرغی کی قیمت 330 روپے تک ہے۔
تاہم مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اچانک 40 سے پچاس فیصد کمی کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں، جن میں نرخوں میں پستی کی وجہ ان پرندوں میں کسی بیماری کو بتایا جا رہا ہے۔
پنجاب میں پولٹری ایسو سی ایشن کے مرکزی نائب صدر سلمان الٰہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملک میں یہ اب ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ جب بھی مرغی کی قیمت کم ہوتی ہے، تو بعض عناصر کی جانب سے افواہیں پھیلانا شروع کر دی جاتی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کہ مرغی میں کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں ہے اور ملک بھر میں لوگ اب بھی یہ پرندہ خرید رہے ہیں۔
سلمان الٰہی کا کہنا تھا کہ ’مرغیوں میں ابھی تک کسی قسم کی بیماری کا کیس رپورٹ نہیں ہوا اور اگر پھر بھی کسی کو شک ہے تو وہ بلا روک ٹوک کسی بھی لیبارٹری سے مرغی کے گوشت کا چیک ٹیسٹ کروا سکتا ہے۔یہ صرف افواہیں ہیں تاکہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔‘
پولٹری کی صنعت کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے اور سلمان الٰہی کے مطابق اس صنعت کے لیے سالانہ 190 ارب روپے کی زرعی اجناس خریدی جاتی ہیں۔
سلمان نے مزید بتایا، ’پاکستان میں سالانہ 15 کروڑ کلو گرام سے زائد مرغی کا گوشت استعمال ہوتا ہے، جو پولٹری کی صنعت پاکستان کے اندر ہی مہےس کرتے ہے۔‘
قیمتوں میں کمی کی وجہ
سلمان الٰہی کے مطابق مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں کمی کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان کے دوران حکومت نے قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ڈیمانڈ اور سپلائی کا مسئلہ سامنے آیا۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر مارکیٹ ریٹ سے تقریباً 50 روپے فی کلو کم جاری کیا جاتا تھا، جب کہ منڈی میں وہی ریٹ زشیادہ کر دیا جاتا تھا۔
سلمان الٰہی نے بتایا، ‘اس وجہ سے مارکیٹ میں خود ساختہ قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں اور بعض لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ ‘
انہوں نے کہا کہ رمضان کے بعد قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئیں ہیں، کیوں کہ کئی ایک ڈیلرز کے پاس سٹاک موجود تھا اور مزید چوزے بھی تیار تھے اور یوں ڈیمانڈ کم اور پیداوار زیادہ ہو گئی۔
مرغیوں کی قیمتوں پر اثر آنے میں سلمان الٰہی کے مطابق تقریباً 40 دن لگتے ہیں کیونکہ چوزے تیار ہونے کے بعد مارکیٹ کو سپلائی کیے جاتے ہیں اور یہی اثر اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئیں ہیں۔
سلمان الٰہی کے مطابق پاکستان کی پولٹری صنعت میں سالانہ 10 سے 15 فیصد بڑھوتی دیکھنے کو ملی ہے اور ملکی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان میں اب بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں کم مرغی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان پولٹری ایسو سی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ فی کس پانچ کلو گرام تک مرغی کا گوشت اور 45 انڈے کھاتا ہے، جب کہ یہ شرح ترقی یافتہ ممالک میں فی کس سالانہ 40 کلو مرغی کا گوشت اور 300 انڈے ہیں۔
قیمتوں میں کمی کی وجوہات کے بارے میں پشاور پولٹری ایسو سی ایشن کے صدر محمد طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کچھ دنوں سے افواہوں کی وجہ سے سپلائی میں کمی آئی ہے۔
کچھ دنوں سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ پاکستان سے افغانستان چوزوں سے سپلائی بند کی گئی ہے لیکن پنجاب پولٹری ایسوسی ایشن کے مرکزی نائب صدر سلمان الٰہی کے مطابق سپلائی پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔
گذشتہ سال نومبر میں افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت نے پاکستان سے مرغی کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی تاہم بعدازاں چکن افغانستان برآمد ہونا شروع ہو گیا تھا۔
بعض اطلاعات کے مطابق پنجاب حکومت نے چوزوں کی افغانستان برآمد پر پابندی عائد کی ہے۔
اس حوالے سے محکمہ خوراک پنجاب کے ایک عہدیدار جو مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے ایک اجلاس کا حصہ تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے وفاق کو چوزوں کی برآمد پر پابندی کے حوالے سے مراسلہ بھیجا گیا ہے۔
تاہم مراسلے میں عہدیدار کے مطابق افغانستان کا خصوصی طور پر نام نہیں لکھا گیا بلکہ مجموعی برآمد کی بات کی گئی ہے اور اس کی وجہ ملک میں مرغی کی قیمت میں گذشتہ کچھ ہفتوں سے بے تحاشہ اضافہ بیان کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’محکمہ لائیو سٹاک اور محکمہ خوراک کے میٹنگ میں اس پر بات کی گئی تھی کہ پاکستان میں ڈیمانڈ پوری کرنے کے بعد ہی چوزے کو برآمد کرنا چاہیے کیونکہ ڈیمانڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے 40 روپے کا ایک چوزہ 100 روپے سے زائد میں بک رہا ہے۔‘
اسی عہدیدار نے قیمتوں میں کمی کی ایک وجہ ڈیمانڈ میں کمی بتائی کیونکہ موسم گرم میں مرغی کی ڈیمانڈ میں کمی آتی ہے، جب کہ شادی بیاہ کے تقریبات بھی پچھلے مہینوں کے مطابق اب کم ہونا شروع ہو گئی ہیں، جن میں زیادہ مرغیاں استعمال ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’دوسری وجہ یہی برآمد کرنے پر پابندی کے حوالے سے سفارش ہے اور باہر لوگوں کو پتہ چل گیا ہے، تو انہوں نے قیمتیں کم کرنا شروع کر دی ہیں۔‘