مسلم ورلڈ لیگ (ایم ڈبلیو ایل) کے سیکریٹری جنرل شیخ محمد عبدالکریم العیسیٰ اس وقت پاکستان کے نو روزہ دورے پر ہیں۔ اسلام آباد پہنچنے پر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی سالک حسین نے ان کا استقبال کیا۔
ایم ڈبلیو ایل مکہ مکرمہ میں قائم ایک تنظیم ہے جو اسلامی تعلیم، ثقافت اور عربی زبان کی ترویج کے علاوہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والی دنیا بھر کی مسلمان برادریوں کو امداد فراہم کرتی ہے۔
ایم ڈبلیو ایل، جسے رابطہ عالم اسلامی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پاکستان کو خصوصی اہمیت دیتی ہے اور اس کی ایشیائی شاخ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔
شیخ عیسیٰ اس سے قبل بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور انہیں 2022 میں اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
دیگر ثقافتوں اور تہذیبوں کے ساتھ مکالمہ وہ طریقہ کار ہے جو ایم ڈبلیو ایل دیگر ثقافتوں اور مذاہب کے ساتھ تفہیم اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اختیار کرتی ہے۔
اس کا مقصد اسلام کے پیغام کے بارے میں غلط فہمیوں میں گھری ہوئی بین الاقوامی نفسیات کو ٹھیک کرنا ہے۔ اس نفسیات کی ایک مثال اسلاموفوبیا کا مکروہ بیانیہ ہے۔
ایم ڈبلیو ایل ضرورت مند بچوں کے لیے دنیا بھر میں 68 سکولوں اور کالجوں کو چلانے میں مدد کرتی ہے۔
اس نے گھانا میں متعدد ٹیوب ویل لگا کر پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں مدد کی ہے۔ مصر اور چاڈ میں یونیورسٹی کے پروفیسروں کے لیے سائنس سیمینار منعقد کیے ہیں۔
چند سال قبل ایم ڈبلیو ایل نے انڈونیشیا میں اسلام کے درمیانی راستے کو اجاگر کرنے کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔
ایم ڈبلیو ایل کی سپریم کونسل کی سربراہی سعودی عرب کے مفتی اعظم کر رہے ہیں اور اس میں مختلف ممالک سے منتخب ہونے والے 60 ممتاز اسلامی سکالرز شامل ہیں۔
یہ اہم دورہ جاری ہے۔ شیخ العیسیٰ نے اسلام آباد کی فیصل مسجد میں عید کا خطبہ بھی دیا۔ دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں شمار ہونے والی یہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی جو خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
سیکریٹری جنرل نے علی ابن طالب مرکز برائے یتاما کا بھی دورہ کیا۔ یہ یتیم خانہ ایم ڈبلیو ایل کے زیر انتظام چلایا جاتا ہے۔
وہ اسلام آباد میں اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں عید کی تعطیلات گزارنے کا ان کا فیصلہ بڑی علامتی اہمیت کا حامل ہے اور اس بات کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ایم ڈبلیو ایل پاکستان کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے حوالے سے دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
2022 میں پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں ہر سال 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں تمام رکن ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ اسلاموفوبیا کی لعنت کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسیاں مرتب کریں اور اقدامات کریں۔
یہ بھی ایم ڈبلیو ایل کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ اسی طرح سعودی عرب نے 2005 میں مکہ مکرمہ میں ہونے والی تیسری غیر معمولی اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد سے قائدانہ کردار ادا کیا ہے جس کا مقصد انتہا پسندی کی مخالفت اور مختلف عقائد اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو فروغ دینا ہے۔
تمام مذاہب میں ہمدردی، انصاف اور محبت جیسی مشترکہ اقدار ہیں۔ دونوں ممالک کا ماننا ہے کہ اختلافات کی بجائے ان مشترکہ اقدار کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔ ایم ڈبلیو ایل اسی پیغام کو دنیا بھر میں پھیلا رہی ہے۔
درحقیقت اکتوبر 2022 کو ایم ڈبلیو ایل کے سربراہ کو پیغام امن پھیلانے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں سول ایوارڈ ہلال پاکستان دیا گیا تھا۔
ایم ڈبلیو ایل قومی اور بین الاقوامی سطح پر بین المذاہب مکالمے اور ہم آہنگی کے لیے فورمز کے قیام کے لیے کام کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں قومی علما کونسل کو بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
توقع ہے کہ سیکریٹری جنرل اس دورے کے دوران پاکستان میں جدید ترین ’سیرت میوزیم‘ کے قیام کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کریں گے۔
سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب دستخط کی تقریب کے فوراً بعد ہوگی۔ ایک اہم مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں ایسا میوزیم ہونا چاہیے جو لوگوں میں اسلامی تاریخ کے بارے میں آگاہی پھیلا سکے۔
دو مقدس مساجد کے متولی کی حیثیت سے یہ مملکت مسلم ممالک کی برادری میں اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ او آئی سی اور ایم ڈبلیو ایل کی بھی میزبانی کرتی ہے۔
یہ دورہ ان دونوں ممالک کے درمیان روحانی بندھن کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔ تعلقات کے مادی پہلو میں تجارتی روابط، مملکت میں پاکستانی افرادی قوت اور دفاعی و سکیورٹی تعاون شامل ہیں۔
یہ دونوں تعلق، بظاہر متنوع ہیں، باہمی تعلقات کے ذریعے ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ لہذا ان میں سے ہر ایک رشتہ یکساں طور پر اہم ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور یہ اس بار عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پہلا بیرون ملک دورہ تھا۔
ایم ڈبلیو ایم کے سیکریٹری جنرل کا یہ دورہ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور اسلام کی معتدل اور رواداری کی فطرت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی اس باہمی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔
جاوید حفیظ ایک سابق پاکستانی سفارت کار ہیں جو مشرق وسطیٰ کا بہت تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ پاکستانی اور خلیجی اخبارات میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں اور دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار کی حیثیت سے سیٹلائٹ ٹی وی چینلز پر باقاعدگی سے نظر آتے ہیں۔
نوٹ: عرب نیوز پر پوسٹ ہونے والی یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے۔