جمال نے گاڑی بیچ دی ہے اور موٹر سائیکل خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اس کی زندگی کی واحد لگژری تھی جس سے اب وہ محروم ہو گیا ہے۔
اس نے یہ فیصلہ 30 ستمبر کو پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 127 روپے 30 پیسے ہونے کے بعد کیا ہے، کیونکہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں دیگر گھریلو اخراجات کے ساتھ گاڑی کے استعمال کا خرچ نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔
مزید لکھنے سے پہلے میں بتاتا چلوں کہ جمال ایک عام پاکستانی ہے۔ ایک نجی کمپنی میں 50 ہزار ماہانہ پر ملازمت کرتا ہے۔ تین سال پہلے کمیٹی ڈال کر ایک گاڑی خریدی تھی، جس سے اب وہ محروم ہو چکا ہے۔
وہ ابھی اسی غم میں مبتلا تھا کہ اس نے حماد اظہر کا بیان سنا کہ حکومت پاکستان کم سے کم ٹیکس لیوی چارج کر رہی ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اس لیے پاکستان میں بھی بڑھانا مجبوری ہے۔ جمال سوچنے لگا کہ عمران خان نے مہنگائی کم کرنے اور غریب کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو مشکل حالات میں سایہ دار بادل کی طرح کڑی دھوپ سے عوام کی حفاظت کرے۔ اگر مشکلات میں سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالنا ہے تو لیڈر اور عام آدمی میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
پاکستان کے حالات خراب ہونے کی وجہ جاننے کے لیے جب اجمل نے اپنے معاشی ماہر دوست سے گفتگو کی تو اس نے بتایا کہ ان حالات کی اصل ذمہ دار حکومت پاکستان ہے۔ جب کرونا وبا کے ابتدائی دنوں میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آئی تھیں تو حکومت کو پیٹرولیم کمپنیوں سے دیر پا معاہدے کر نے چاہیے تھے۔ ایک مخصوص ریٹ پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں طے کر لی جاتیں۔ اس وقت سابق مشیر برائے پیٹرولیم ندیم بابر صاحب نے اعلان کیا تھا کہ بہت جلد سستے تیل کے لمبے معاہدے کر لیے جائیں گے لیکن اس پر صرف باتوں کی حد تک عمل ہوا، عملی میدان میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
اس کی مبینہ وجہ پاکستان میں کام کرنے والا تیل مافیا ہے جو تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمال سوچنے لگا کہ ایک طرف عمران خان مافیاز کے خلاف جہاد کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف کرونا وبا کے دنوں میں سستے تیل کے لمبے معاہدے نہ کر کے تیل مافیا کو سپورٹ بھی کرتے رہے۔ جس پر ان کا احتساب ہونا چاہیے۔
کیا اجمل جیسے کروڑوں عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں ان کے حوالے سے کوئی اچھی خبر ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے میں نے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا: ’کووڈ کے بعد امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک نے مانیٹری پھیلاؤ کی طرف توجہ دی ہے۔ آسان شرائط پر قرض دیے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے نئی صنعتیں لگ رہی ہیں اور پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف طلب میں اضافہ ہورہا ہے لیکن دوسری طرف سپلائی میں مطلوبہ اضافہ نہیں کیا جا رہا۔ ترقی یافتہ ممالک خصوصاً امریکہ کی آسان قرض دینے کی پالیسی زیادہ دیر چلتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ بین الاقومی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بتدریج کم ہو رہی ہے۔ اسے روکنے کے لیے امریکہ ممکنہ طور پر پالیسی تبدیل کر سکتا ہے، جس سے بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور قیمتیں کم ہونے کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن اس میں وقت لگے گا۔ فی الحال اگلے 12 ماہ پاکستان کے لیے مشکل ہیں۔‘
حکومتی موقف جاننے کے لیے جب میں نے وزرات پیٹرولیم کے ایک عہدیدار سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمت برطانیہ کی نسبت کم ہیں۔ پاکستانی عوام کو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ میں نے برطانیہ میں مقیم ایک کاروباری شخصیت ذو ہیب شاہنواز سے رابطہ کر کے اس بارے استفسار کیا تو اانہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں ایک لیٹر پیٹرول اوسطاً ایک پاؤنڈ 30 پینس کا ہے جو کہ پاکستانی تقریباً تین سو روپے لیٹر بنتا ہے، جبکہ پاکستان میں 128 روپے 30 پیسے لیٹر ہے۔
لیکن دوسری طرف برطانیہ میں ایک گھنٹہ کام کرنے کی کم سے کم اجرت تقریباً سات پاؤنڈ ہے۔ اگر دن میں آٹھ گھنٹے کام کیا جائے تو 56 پاؤنڈز کمائے جا سکتے ہیں۔ جو کہ پاکستانی تقریباً 13 ہزار روپے بنتے ہیں۔ جس سے تقریباً 43 لیٹر پیٹرول خریدا جا سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ایک دن کی کم از کم اجرت تقریباً پانچ سو روپے ہے، جس سے صرف چار لیٹر پیٹرول خریدا جا سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معیشیتوں کا موازنہ کرنا ہے تو مکمل طور پر کیا جائے۔ یک طرفہ اعدادوشمار پیش کر کے سوشل میڈیا پر تشہیری مہم تو چلائی جا سکتی ہے لیکن انفارمیشن کے اس دور میں عوام کو بیوقوف بنانا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔
ماہر معیشت ظفر پراچہ صاحب سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا: ’حکومت نے جون کے مہینے میں آئی ایم ایف سے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت میں تقریباً 30 روپے اضافے کا معاہدہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ پیش کرتے وقت وزیر خزانہ نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ یہ اضافہ بین الاقومی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ تھا۔ بدقسمتی سے تیل کی قیمتیں بین الاقومی مارکیٹ میں اتنی بڑھ گئیں کہ ٹیکس بڑھانے کی بجائے کم کرنا پڑ رہا ہے، جس کا اثر ڈویلپمنٹ فنڈ پر پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا: ’حکومت نے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں تقریباً 21 سو ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا ہے، جو ممکنہ طور پر 400 سے 500 ارب روپوں کا ترقیاتی بجٹ کم کیا جا سکتا ہے۔ یا دوسری صورت میں تیل کی قیمتوں کو 30 روپے فی لیٹر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اب یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ ترقیاتی بجٹ کم کرنا ہے یا تیل کی قیمتوں کو مزید بڑھانا ہے۔‘
پراچہ صاحب کی رائے کے مطابق معاشی حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر جمال اور اس جیسے کروڑوں پاکستانیوں کے مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ جمال کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ میرے لیے میرا گھر، بیوی، بچے اور والدین پوری دنیا ہیں۔ میں حکومتی بہتر پالیسی کے دعوے کو اس وقت درست مانوں گا جب میرے گھر کا کچن چلتا رہے، ادھار نہ لینا پڑے، اور پیٹرول کا خرچ پورا ہوتا رہے۔