پاکستانی معیشت ڈوبتی جا رہی ہے اور روپیہ سٹیٹ بینک کی راہ تکتے تکتے تیزی سے بےجان ہوتا جا رہا ہے، لیکن ٹی وی چینل صبح کھولیں تو حمزہ شہباز پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حلف لیتے نظر آئیں گے۔ شام کو کھولیں تو تحریک انصاف عدالت پہنچ کر حمزہ کا اقتدار تمام کرچکی ہوتی ہے۔
تین ماہ سے یہی تماشہ چل رہا ہے۔ پنجاب کا سیاسی عدم استحکام ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں دبے الفاظ میں بالواسطہ یا پھر کھلے الفاظ میں موجودہ صورت حال کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہوئے غیرجانبداری ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
لیکن یہاں تک ہم کیسے پہنچے؟
عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے رخصت ہوئی۔ پی ٹی آئی نے پہلے الزام امریکی سازش اور اسٹیبلشمنٹ پر لگایا تو سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اسے یہ کہہ کر جمہوریت کی فتح قرار دیا کہ اب اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نیوٹرل ہو چکی ہے۔ لیکن حکومت کا یہ موقف صرف دو ماہ ہی قائم رہ سکا۔
خصوصاً پنجاب میں ضمنی انتخابات میں بری شکست کے بعد سے کئی سینیئر وزرا یہ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ ہمیں طوفان میں دھکا دے کر اگر اسٹیبلشمنٹ نے پیچھے ہٹنا تھا تو عمران خان کو ہی کیوں نکالا؟
اسٹیبلشمنٹ سے ان کا مطالبہ بڑا سیدھا سادھا ہے کہ موجودہ حالات میں عمران خان اور ان کی جماعت سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ ہیں تو پھر کیوں ان کو سبق نہیں سکھایا جا رہا؟ لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ مقتدر حلقے سیاسی کھینچا تانی میں کسی ایک جانب جھکاؤ کے لیے نہیں تیار۔
اس ساری صورت حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عمران خان حکومت اور اسٹیبلمشنٹ میں بظاہر پیدا ہونے والی دوری سے فائدہ اٹھاتے۔
انہوں نے کور کمیٹی کے اجلاس میں سینیئر اراکین کو اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نہ کرنے کی تلقین بھی کی۔ لیکن نجی محلفوں میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی نئی حدیں قائم کر رہے ہیں، ان کی کڑوی تنقید اور الفاظ کا انتخاب اسلام آباد میں زبان زد عام ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ان حالات میں جب اپوزیشن اور حکومت دونوں اسٹیبلشمنٹ کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں تو مقتدر حلقے کریں تو کریں کیا؟
کسی ایک پلڑے میں وزن ڈالنے سے تو وہ بار ہا انکار کرچکے ہیں۔ لیکن بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور معیشت کو ڈوبتا دیکھتے ہوئے ان کے خاموش رہنے کا آپشن بظاہر ختم ہونے جا رہا ہے۔
حالات کو بہتر بنانے کے لیے اسٹیبلشمنَٹ کی جانب سے نرم مداخلت کی سینیئر صحافی انصار عباسی کی خبر کی آئی ایس پی آر نے تردید تو کر دی لیکن اسلام آباد کا ابر آلود موسم گرج چمک کے ساتھ بھرپور بارش کے اشارے دے رہا ہے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن کو سر جوڑ کر کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ ورنہ ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں ’اکنامک ایمرجنسی‘ لگانے کے لیے نرم ہو یا سخت مداخلت ناگزیر سمجھی جائے گی۔
اس تمام معاملے کو کچھ لوگ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع سے بھی جوڑ رہے ہیں جس سے وہ صاف انکار کر چکے ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر عوامی طور پر یہ بات کہہ چکے ہیں۔
موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل انتخابات ہی ہیں لیکن الیکشن کے موجودہ سال میں ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور اس کی بڑی وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں۔
کیا انتخابات ہوئے بغیر سیاسی عدم استحکام ختم ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ تو جب انتخابات نہیں ہو سکتے اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی لازمی ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب اسلام آباد کے ایوانوں میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔
اس وقت شہباز شریف کے لیے معیشت کو سنبھالنا ضروری ہے یہی ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن یہ صاف نظر آ رہا ہی کہ پنجاب کے معاملات انہیں فوکس رہ کر پرفارم کرنے نہیں دے رہے۔
بہتر یہی ہو گا کہ تحریک انصاف اور ق لیگ کی وزارت اعلیٰ کے بارے میں عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں حکومت کرنے دی جائے اور مرکز میں معیشت کی بحالی پر توجہ مرکوز رکھی جائے ورنہ ایسے نہ ہو کہ پنجاب بھی ہاتھ سے جائے اور آئندہ انتخابات میں ن لیگ اس الزام کے ساتھ جائے کہ آپ کی تجربہ کار ٹیم سے تو معیشت سنبھل نہیں پائی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر منبی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی ہیں۔