سائنس دانوں نے ایسا مواد بنا لیا، جو ’سوچ سکتا ہے‘

پین سٹیٹ یونیورسٹی کے محقق کے مطابق: ’ہم نے ایک ایسا انجینیئرنگ مواد تیار کیا ہے جو بیک وقت میکانیکی دباؤ کو محسوس کر سکتا ہے، سوچ سکتا ہے اور اس پر عمل کر سکتا ہے۔‘

تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ کمپیوٹر کی طرح کام انجام دینے کی صلاحیت رکھنے والے مربوط سرکٹ ہمارے ارد گرد ’تقریباً کسی بھی مواد‘ کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جا سکتے ہیں (فوٹو: پکسابے)

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا مواد تیار کیا ہے جو ’سوچنے‘ کے قابل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پین سٹیٹ یونیورسٹی اور امریکی فضائیہ کے محققین نے میکانیکی معلومات کی پروسیسنگ کو بروئے کار لانے اور اسے مواد کی ایک جدید شکل میں ضم کرنے کے لیے 1938 سے ہونے والی تحقیق پر مزید کام کیا۔

یہ ٹیکنالوجی مربوط سرکٹس پر مبنی ہے، جو عام طور پر سلیکون سیمی کنڈکٹرز پر انحصار کرتی ہے تاکہ معلومات کو اس طرح پراسیس کیا جا سکے جس طرح انسانی جسم میں دماغ کا کردار ہے۔

تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ کمپیوٹر کی طرح کام انجام دینے کی صلاحیت رکھنے والے مربوط سرکٹ ہمارے ارد گرد ’تقریباً کسی بھی مواد‘ کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جا سکتے ہیں۔

پین سٹیٹ یونیورسٹی میں مکینیکل انجینیئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ریان ہارن نے کہا: ’ہم نے ایک ایسا انجینیئرنگ مواد تیار کیا ہے جو بیک وقت میکانیکی دباؤ کو محسوس کر سکتا ہے، سوچ سکتا ہے اور اس پر عمل کر سکتا ہے اور اسے اس طرح کے سگنلز پر کارروائی کے لیے درکار اضافی سرکٹوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ نرم پولیمر مواد ایک دماغ کی طرح کام کرتا ہے جو عمل کرنے کے لیے علامات اور اعدادوشمار کی صورت میں معلومات لیتا ہے، جس کے نتیجے میں ڈیجیٹل معلومات کے نئے سلسلے پیدا ہوتے ہیں، جو ردعمل کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مواد دوبارہ تشکیل دیے جا سکنے والے سرکٹوں کا استعمال کرتے ہوئے کام کرتا ہے جو بیرونی محرکات وصول اور انہیں برقی معلومات میں تبدیل کر سکتے ہیں، جس کو بعد ازاں آؤٹ پٹ سگنل بنانے کے لیے پراسس کیا جا سکتا ہے۔

ٹیم نے مواد سے پیچیدہ حساب کتاب کروا کر اس کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، لیکن اسے خود مختار سرچ اینڈ ریسکیو سسٹمز جیسی ایپلی کیشنز کو لائٹ سگنلز بھیجنے کی خاطر درکار ریڈیو فریکوئنسی کا پتہ لگانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہاں تک کہ ممکنہ طور پر اسے بائیو ہائبرڈ مواد میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جو ہوا میں موجود بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کی شناخت، انہیں الگ اور بے اثر کر سکتا ہے۔

سائنس دانوں کو اب امید ہے کہ وہ ایسا مواد بھی تیار کر لیں گے جو دیکھ کر معلومات پر اسی طرح عمل کرسکے جس طرح یہ اشاروں کو ’محسوس‘ کرتا ہے۔

پروفیسر ہارن نے کہا: فی الحال ہم اس کو ’دیکھنے‘ والے ذرائع میں تبدیل کر رہے ہیں تاکہ اس ’چھونے‘ کے احساس کو بڑھا سکیں جو ابھی ہم نے پیدا کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارا مقصد ایک ایسا مواد تیار کرنا ہے جو کسی ماحول میں نشانات دیکھ کر اور ان پر عمل کر کے خودکار طریقے سے اپنا راستہ متعین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور نقصان دہ چیزوں سے بچنے کا اہل ہو، مثلاً اگر اس پر کوئی پاؤں رکھ دے (تو اس سے خود کو بچا سکے)۔‘

اس تحقیق کی تفصیلات پر مشتمل ایک مطالعہ بدھ کو سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس