رائے محمد منیر کا تعلق صوبہ پنجاب کے علاقے مریدکے سے ہے۔ وہ بڑے زمیندار ہیں۔ آلو، چاول، تِل، مکئی، کپاس اور گندم وغیرہ کاشت کرتے ہیں۔ انڈیا سے تجارت پر پابندی لگنے کی وجہ سے وہ پچھلے چند سالوں سے اچھا منافع کما رہے ہیں۔
وہ خوش ہیں کہ انڈیا سے تجارت بند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مزدوری کا ریٹ پاکستان کی نسبت کم ہے۔ حکومت کسان کو سستی بجلی فراہم کرتی ہے۔ کھاد، بیج اور ادویات کی قیمتیں بھی کم ہیں، جس کی وجہ سے فصل کی تیاری میں لاگت کم آتی ہے اور انڈیا کی اجناس کی قیمت بھی پاکستان کی نسبت کم ہو جاتی ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان میں بجلی، کھاد، بیج اور مزدوری کا ریٹ انڈیا کی نسبت زیادہ ہے۔ فصل تیاری میں لاگت زیادہ آتی ہے۔ بقول منیر: ’سرحد کھلنے سے میری فصل کا ریٹ بھی گر جائے گا۔ جب بھارت کی سستی اجناس مارکیٹ میں موجود ہوں گی تو مہنگی پاکستانی اجناس کوئی نہیں خریدے گا۔ مجبوراً مجھے لاگت سے کم میں فصلیں بیچنا پڑیں گی اور میں ایک مرتبہ پھر مالی بحران کا شکار ہو جاؤں گا۔
’اگر پاکستانی سرکار انڈیا سے تجارت بحال کرنا چاہتی ہے تو پہلے پاکستانی کسان کو سبسڈی مہیا کرے۔ بجلی، کھاد کی جو قیمتیں بھارت میں ہیں مجھے بھی وہی ریٹ دیا جائے تا کہ میرا اور مجھ جیسے ہزاروں زمینداروں کا استحصال نہ ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت ہنگامی صورت حال ہے۔ جن اجناس کی فصل کو نقصان پہنچا ہے بھارت سے ان کی درآمدات کی اجازت دینا وقت کی ضرورت ہے۔ تھوڑے عرصے کے لیے درآمدات پر سے پابندی ہٹانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہنگامی صورت حال ختم ہونے کے بعد انڈیا سے زرعی اجناس کی درآمدات پر فوراً پابندی لگا دینی چاہیے۔ پہلے ہی جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں فصلوں کی تباہی نے کسانوں پر قیامت ڈھائی ہوئی ہے اور جو کسان اس تباہی سے بچ گئے ہیں، بھارت سے زرعی اجناس کی تجارت ہمیشہ کے لیے کھول کر ان کی مشکلات نہ بڑھائی جائیں۔‘
رائے منیر کے خدشات درست دکھائی دیتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں تجارت کھلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں یا نہیں اس کا علم چند دنوں میں ہو جائے گا۔ فی الحال وزرات خارجہ کے ترجمان کے مطابق سیلاب متاثرین کے لیے انڈیا سے سبزیاں درآمد کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے، لیکن وزیر خزانہ مختلف پلیٹ فارمز پر بھارت کے ساتھ تجارت کھلنے کے امکانات کا اظہار کر چکے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انڈیا سے تجارت کے راستے کھولنے کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا: ’یہ کوئی مناسب بات نہیں ہے کہ انڈیا کی اشیا سستی ہونے کی وجہ سے پاکستانی کسان کی آمدن پر فرق پڑے گا، اس لیے درآمدات نہ کی جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کسان کو وہ سہولتیں فراہم کرے جو انڈیا اپنے کسانوں کو مہیا کرتا ہے۔‘
پاکستان اور بھارت میں تجارتی راستے کھلنے کے ملکی معیشت پر اثرات کے حوالے سے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبلز ایکسپورٹر، امپورٹر اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے پیٹرن اِن چیف وحید احمد کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں اس وقت ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔ ٹماٹر اور پیاز کی فصلوں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب سے پیاز کی فصل اپریل سے جون میں آ جاتی ہے، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پیاز کی پہلی فصل تیاری کے مراحل میں تھی، جسے شدید نقصان پہنچا ہے، اس لیے پیاز کی اگلی فصل کی تیاری میں بھی تاخیر ہوگی، اسی طرح ٹماٹر کی پیداوار خیبرپختونخوا میں زیادہ ہے۔ اسے بھی نقصان پہنچا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فی الحال اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بھارت سے پیاز اور ٹماٹر درآمد کیا جانا چاہیے۔ گو کہ حکومت نے ایران اور افغانستان سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمدات کی اجازت دی ہے لیکن یہ پاکستان کی ضرورت سے کم ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے متحدہ عرب امارات سے 13 ہزار ٹن پیاز اور ٹماٹر درآمد کرنے کے پرمٹ جاری کر دیے ہیں جو کہ خوش آئند ہے، لیکن اگر یہی اجناس انڈیا سے براہ راست درآمد کر لی جائیں تو اس کا پاکستان کو زیادہ فائدہ ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریاض وٹو بڑے پیمانے پر سبزیوں کی درآمدات کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’متحدہ عرب امارات سے جو پیاز اور ٹماٹر درآمد کیا جائے گا وہ دراصل انڈیا سے متحدہ عرب امارات پہنچے گا اور پھر اسے پاکستان لایا جائے گا۔ اس طریقے سے درآمدات کرنے میں زیادہ سرمایہ خرچ ہوتا ہے اور ڈالر کی طلب بھی بڑھتی ہے۔ اگر یہی تجارت سڑک کے راستے کی جائے تو پاکستانی معیشت کو زیادہ فائدہ ہو گا اور عوام کو بھی سستی سبزیاں مل سکیں گی۔‘
ان کے مطابق: ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کبھی رکی ہی نہیں۔ صرف یہ فرق پڑا ہے کہ پہلے جو سامان پاکستان اور انڈیا بارڈر کے ذریعے پاکستان آتا تھا اب وہ متحدہ عرب امارات کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ پاکستانی سپر سٹورز پر بھارتی برانڈ کی اشیا کی موجودگی اس کا واضح ثبوت ہے۔‘
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انڈیا سے براہ راست تجارت کھولنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان متحدہ عرب امارات سے تقریباً 10 ارب ڈالرز کی تجارت کرتا ہے، جن میں 1.36 ارب ڈالرز کی درآمدات اور 8.66 ارب ڈالرز کی درآمدات شامل ہیں۔ پاکستان متحدہ عرب امارات سے جو اشیا درآمد کرتا ہے ان میں تقریباً 90 فیصد کا تعلق انڈیا سے ہے۔‘
انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان براہ راست تجارت بالکل بند ہے۔ بقول خالد عثمان: ’پاکستانی ادارہ برائے شماریات کے مطابق جولائی 2021 سے مارچ 2022 میں انڈیا نے پاکستان کو 0.0021 ملین ڈالرز کی ادویات، فارماسوٹیکل سامان اور قیمتی پتھر برآمد کیے ہیں اور پاکستان نے اسی دورانیے میں انڈیا کو 28 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی ہیں، جن میں کیمیکلز اور ادویات کا سامان سرفہرست ہیں۔ اگر ان اشیا کی تجارت کی جا سکتی ہے تو دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی تجارت کرنے کی بھی اجازت دی جانی چاہیے۔‘
رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے سابق سینیئر وائس چیئرمین فیصل جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیلاب میں چاول کی فصل اور گودام بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور آنے والے دنوں میں پاکستان کو ہائبرڈ چاولوں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
فیصل جہانگیر کے مطابق: ’انڈیا ہائبرڈ چاولوں کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ پاکستان براہ راست چاول درآمد کر کے اپنی وقتی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چین اور انڈیا کے درمیان شدید اختلافات ہیں اور جنگیں بھی ہو چکی ہیں، اس کے باوجود چین ملکی چاول کی ضرورت انڈیا سے پوری کرتا ہے اور انڈیا ٹیکنالوجی کی ضروریات چین سے پوری کرتا ہے۔ اگر چین اور انڈیا شدید مخالفت کے باوجود تجارت بند نہیں کرتے تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت پر پابندی کا کیا جواز ہے۔‘
اسی طرح ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکٹری ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا سے تجارت کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اسے برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ انڈیا ہمارے ڈالرز اپنے ملک میں لے جاتا رہے اور پاکستان سے اس کے بدلے برابر ایکسپورٹ نہ کرے۔‘