حکمران معیشت کو بہتر بنانے کا دعوے کر رہے ہیں، لیکن شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ملک کی تقریبا 40 فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں اور کپاس کی پیداوار پچھلے دس سالوں میں 50 فیصد سے زیادہ کم ہو چکی ہے۔
پاکستانی کپاس ملکی ضرورت پوری نہیں پا رہی ہے۔ فیکٹری مالکان پاکستان میں فیکٹریاں بند کر کے بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل یونٹ لگا رہے ہیں اور جو کپاس کاشت کر رہے ہیں ان کو مناسب قیمت اور سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے اس سال پیداوار صرف تقریباً 50 لاکھ کاٹن بیلز ہے۔ ہر سال پیداوار کم ہو رہی ہے اور ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔
آل پاکستان ٹیسکٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما) کے چیرمین کامران ارشد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری کا 70 فیصد انحصار کپاس پر ہوتا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سالانہ تقریبا سوا کروڑ کاٹن بیلز کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پیداوار صرف 70 سے 90 لاکھ کاٹن بیلز ہوتی ہے۔ اس سال مزید کم ہو گئی ہے۔ پیداوار کا جو فرق ہے اسے پورا کرنے کے لیے درآمد کرنے کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ پاکستانی کاٹن کی پیداوار ہر سال کم ہو رہی ہے۔ سال 2012 میں پیداوار ایک کروڑ 35 لاکھ کاٹن بیلز تھیں جو کہ آج پاکستان کی مکمل ضروت سے سے دس لاکھ زیادہ ہے۔ وقت کے ساتھ اس پیدوار میں اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن دس سالوں میں پیداوار بڑھنے کی بجائے 50 فیصد کم ہو گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری کو وہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جو دیگر ممالک میں موجود ہیں ۔ ٹیسکٹائل انڈسٹری کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ مہنگی بجلی، گیس کی قلت، خطے میں سب سے زیادہ شرح سود اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بجلی اور گیس کے ریٹس عالمی ریٹس کے مطابق ہونے چاہییں۔ جبکہ جو بجلی مل رہی ہے وہ دنیا میں سب سے مہنگی ہے۔ تقریبا 15سینٹس پر بجلی مل رہی ہے جبکہ بنگلہ دیش، بھارت اور چین میں نو سینٹ بجلی مل رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ ہماری انڈسٹری کے لیے فیکٹریاں چلانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال 125 ٹیکسٹائل ملز بند ہوئی ہیں۔ اگلے سال مزید فیکٹریاں بند ہو جائیں گی۔ سال 2020 میں بجلی کی قیمت نو سینٹس مقرر کی گئی تھی جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے مکمل کپیسٹی پر کام کیا اور ہم دنیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والے ممالک میں سب سے آگے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آل پاکستان کسان اتحاد کے جزل سیکریٹری رانا محمد ظفر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کپاس کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی ہے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن سرکار آج تک پاکستانی ماحول کے مطابق بیج تیار نہیں کر سکی ہے۔ پھول اور گوڈی کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں تقریباً چھ سو سے زیادہ بیج کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے اکثر جعلی اور ناقص معیار کا بیج تیار کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار بھی کم ہے اور معیار بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ لیکن سرکار ایکشن نہیں لے رہی۔
’ہندوستان میں صرف 50 کمپنیاں کپاس کا بیج بناتی ہیں اور وہ معیاری ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے چار گنا زیادہ ہے اور معیار بھی بہتر ہے۔ انڈین پنجاب میں کسان کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں کسان کی آمدن کا بڑا حصہ صرف بجلی کے بلوں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جعلی پیسٹی سائیڈ اور ادویات کی بھرمار ہے اور کسان کی تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جعلی ادویات استعمال کرکے نقصان اٹھا رہے ہیں۔‘
ایپٹما پنجاب کے چیرمین اسد شفیع نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹیکسٹائل اور کسان کی تباہ حالی میں بیوروکریسی کا بڑا کردار ہے۔ بیوروکریسی نے دھاگے کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔جس کی وجہ سے درآمد سستی ہو گئی ہے اور کپاس کے کاشت کار نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ حکومتیں مقامی صنعت کو سہولتیں دیتی ہیں جبکہ ہمارے حکمران شاید انہیں ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ماضی میں بھی ایسے فیصلوں کی وجہ سے کپاس کی کاشت کم ہوئی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان دبئی کے راستے بھارتی دھاگہ درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری اپنی گارمنٹ فیکٹری میری اپنی دھاگہ بنانے والی فیکٹری سے دھاگہ نہیں خرید رہی کیونکہ اسے 18 فیصد سیلز ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس لیے ہم چائنا سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان اس وقت امریکی کپاس کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ تقریباً 11لاکھ 92 ہزار بیلز امریکہ سے خریدی گئی ہیں۔ پوری دنیا کے دس سے زیادہ ممالک سے ابھی تک 30 سے 35 لاکھ بیلز درآمد کرنے کے معاہدے ہو چکے ہیں اور ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے 55 لاکھ بیلز درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی سفید لنٹ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ جبکہ بیرون ملک سے سفید لنٹ درآمد کرنے پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔ ایسے فیصلوں کو حادثاتی نہیں کہا جا سکتا بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کپاس کا تقریبا سب سے بڑا برآمدکندہ تھا۔ لیکن آج حالات 180 ڈگری سے تبدیل ہو گئے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مکمل قصور سرکار کا نہیں ہے، کچھ غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں کپاس کے بیج اور فصل پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کام نہیں ہو سکا۔ ملز مالکان نے ادارے بنائے، چائنیز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ ٹیکسٹائل اور کپاس کی فصل کی تباہی کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ تمام سٹیک ہولڈرز ذمہ دار ہیں۔‘