افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ہی سے اس جنگ زدہ ملک میں خواتین اپنی آزادی کے حصول کے لیے صدا بلند کرتی رہی ہیں اور دنیا بھی اُن کی اس آواز میں آواز ملاتی رہی ہے۔
حالیہ مہینوں میں عالمی برادری، کسی ملک یا تنظیم کے کسی نمائندہ کی جب بھی طالبان سے کسی معاملے پر بات چیت ہوئی تو اس کے بعد سامنے آنے والی اطلاعات اور بیانات کے مطابق اس گفتگو میں خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کے موضوعات شامل رہے۔
افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق عالمی برداری کے موقف کی پاکستان بھی حمایت کرتا آیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کسی حد تک سرد مہری موجود ہے اور گلے شکوے دور کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مختلف سطحوں پر رابطے بھی رہتے ہیں۔
لیکن منگل کو طالبان کو ایک خاتون پاکستانی وزیر کی مہمان نوازی کا موقع ملا۔
بہت سے لوگوں کو شاید ایک خوشگوار حیرت ہوئی ہو جب پاکستان کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر کابل کے ہوائی اڈے پر اتریں تو ان کے استقبال کے لیے طالبان حکومت کے نمائندے موجود تھے، جن میں سے کچھ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ حنا ربانی کھر کو خوش آمدید کہا اور بعض نے نظریں ملا کر سلام بھی نہ کیا۔
کابل آمد کے بعد جب مذاکرات کا دور شروع ہوا تو بڑی میز کی ایک جانب طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی جس افغان وفد کی قیادت کر رہے تھے اُس میں ایک بھی خاتون شامل نہیں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب کہ دوسری جانب سر پر ہلکے نیلے رنگ کا دوپٹہ اوڑھے حنا ربانی کھر طالبان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرتی نظر آئیں، سرکاری میڈیا پر سامنے آنے والے ویڈیو کے مطابق پاکستانی وفد میں ایک اور خاتون افسر بھی موجود تھیں۔
بات چیت کے اس دور میں دو طرفہ معاملات پر کتنی بے تکلفی سے گفتگو ہوئی ہو گی اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ بظاہر تو مذاکرات سنجیدہ ماحول ہی میں ہوئے۔
سفارتی مذاکرات کے بعد عموماً بیانات میں تو یہ ہی کہا جاتا ہے کہ بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہو گا لیکن جن اُمور پر اتفاق ہوا اُن پر کتنا عمل درآمد ہو گا اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔
دورے کے نتائج کچھ بھی نکلیں، لیکن اسے اس حوالے سے یاد رکھا جائے گا کہ ایک خاتون پاکستانی وزیر نے طالبان سے ایسے وقت میں مذاکرات کیے جب اس ملک میں بسنے والی خواتین اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
اس دورے سے شاید ایک پیغام افغان سوسائٹی بالخصوص خواتین کو بھی جائے گا کہ طالبان حکومت میں بھی خواتین کو جگہ ملنی چاہیئے۔