اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں دو فروری کو ریپ سے متاثرہ خاتون کی وکیل ایمان حاضر مزاری نے ریپ واقعے کے ملزمان کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کو جھوٹی کہانی قرار دیا ہے تاہم اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم ایف آئی آر میں درج موقف پر قائم ہیں۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری کے ہمراہ جمعے کو نیوز کانفرنس میں ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ جب تحقیقات شروع کی گئیں تو متاثرہ خاتون کو تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
اس موقع پر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ ’ایف نائن پارک ریپ کیس کے ملزمان عادی مجرم تھے جو گذشتہ تین برس میں ریپ کے 50 واقعات میں ملوث تھے۔‘
فرزانہ باری اس واقعے پر بنائی گئی حکومت کی سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کی رکن بھی ہیں۔
پریس کانفرنس میں ایمان مزاری کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے قانون کے تحت کسی ریپ سے متاثرہ فرد کی تفصیلات سامنے لانا جرم ہے۔‘
انہوں نے ملزمان کی ہلاکت کے حوالے سے پولیس کے ’فائرنگ کے تبادلے‘ کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزمان کو جب 15 فروری کو گرفتار کر لیا گیا تو پھر ایسا کیا ہوا کہ انہیں قتل کیا گیا؟‘
انہوں نے ریپ کے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ واقعہ شب آٹھ بج کر 20 منٹ پر ہوا اور پولیس نو بج کر 20 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچی۔ پولیس نے آنے کے بعد پارک کو سیل نہیں کیا۔‘
’انکاؤنٹر کی کہانی جھوٹ ہے‘
متاثرہ خاتون کی وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ ’جب تحقیقات شروع کی گئیں تو متاثرہ خاتون کو واقعے کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ ہم نے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) کو معاملے سے متعلق 11 فروری کو خط لکھا جس میں 12 کوتاہیوں کا ذکر کیا۔ اس خط کا آج تک جواب نہیں آیا۔‘
انہوں نے فائرنگ کے تبادلے کی بات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ انکاؤنٹر کی کہانی جھوٹ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ملزمان کے ان کاؤنٹر کے بعد متاثرہ خاتون کو پمز ہسپتال لے کر جایا گیا اور تب بھی انہوں نے ملزمان کی شناخت کی جب کہ ملزمان نے اقرار جرم بھی کیا۔‘
وکیل نے کہا کہ ’اس کیس پر پولیس افسر ماریہ کو تعینات کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی تعاون نہیں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے واقعے کی تحقیقات کی پیش رفت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’15 فروری کو متاثرہ خاتون نے انہیں (وکیل کو) کال کر کے بتایا کہ انہیں شناخت کے لیے سیکٹر آئی نائن تھانہ بلایا گیا۔ میں نے ایس ایس پی ماریہ کو میسج کیا کہ اب ملزمان پکڑے گئے ہیں تو ان کا میڈیکل اور ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے۔‘
ایمان مزاری نے کہا کہ ’ملزمان سے حراست کے دوران سوال پوچھا گیا کہ کیا انہیں پولیس سے ڈر نہیں لگا؟ جس کے جواب میں انہوں نے ’نہیں‘ کہا۔ آئی جی کے علم میں آئے بغیر یہ واقعہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر متاثرہ خاتون کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار آئی جی، ایس آئی ٹی کی ماریہ سمیت متعلقہ افسران ہوں گے۔‘
فرزانہ باری نے مطالبہ کیا کہ ’واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی جائے۔ اس معاملے کی ذمہ داری متعلقہ فرد پر عائد کی جائے اور پولیس افسران کی ریپ اور ہراسگی سے متعلق واقعات پر تربیت کی جانی چاہئیے۔‘
اسلام آباد پولیس کا موقف:
اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے فرزانہ باری کے ’تین برس میں 50 ریپ کے واقعات‘ کے دعوے کے سوال پر کہا کہ کیس زیر تفتیش ہے۔ اس حوالے سے جتنے بھی کیسز ہیں ان کو میرٹ پر دیکھا جائے گا۔
ملزمان کے جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے سے متعلق بیان پر ترجمان نے کہا کہ ’جو ایف آئی آر میں درج کیا گیا وہی وقوعہ ہوا اور میں اسی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میرا وہی موقف ہے۔‘
ملزمان کا کریمنل ریکارڈ
اسلام آباد پولیس کے انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کردہ کریمنل ریکارڈ کی تفصیلات کے مطابق ان ملزمان کے خلاف سال 2012 میں اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ میں قتل اور اسلحہ رکھنے کے دو مقدمات درج کیے گئے۔
جبکہ سال 2020 میں اسلام آباد کے شالیمار تھانہ میں ملزمان کے خلاف دفعہ 324 کے تحت اقدام قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی۔
اسی طرح سال 2021 میں ٹیکسلا کے تھانے میں قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت اور رواں سال دو فروری کو اسلام آباد کے مارگلہ تھانے میں ریپ کی دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔