برطانیہ میں ایک خاتون جس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ اسے ایشیائی گرومنگ گینگ نے ریپ کیا تھا اور اس کی سمگلنگ کی تھی وہ اب انصاف کے راستے میں رکاوٹ کی مجرم پائی گئی ہیں۔
بیرو ان فرنس علاقے کی 22 سالہ ایلینور ولیمز کو پریسٹن کراؤن کورٹ میں آٹھ الزامات کا مجرم پایا گیا۔
انہوں نے مئی 2020 میں سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کیں جن میں زخموں کے نشانات واضح تھے جو ان کے مطابق مار پیٹ کا نتیجہ تھے لیکن جیوری کو بتایا گیا کہ انہوں نے خود ہی یہ زخم لگائے تھے۔
ایک شخص نے عدالت کو بتایا کہ جھوٹے الزامات نے ان کی زندگی ’تباہ‘ کر دی ہے۔
ایلینور ولیمز نے سوشل میڈیا پر جو خوفناک کہانی سنائی وہ تیزی سے وائرل ہو گئی جس نے برطانیہ میں اس مبینہ اجتماعی ریپ کے واقعے نے غم و غصے کو جنم دیا۔
ان کی فیس بک پوسٹ کو ایک لاکھ سے زیادہ بار شیئر کیا گیا اور ان کے آبائی شہر میں مظاہروں کا سبب بنا، تاہم عدالت کو بتایا گیا کہ یہ ان کی کہانی کا ’حتمی حملہ‘ تھا اور انہوں نے خود کو ہتھوڑے سے زخمی کیا تھا۔
ایلینور ولیمز نے، جنہیں ایلی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں یکجہتی کی تحریک کو جنم دیا۔ انہوں نے یہ الزام لگایا کہ انہیں ان مردوں نے مارا پیٹا اور زیادتی کا نشانہ بنایا جو انہیں انگلینڈ کے شمال مغرب میں جنسی ’پارٹیوں‘ میں لے گئے۔
ان الزامات کے بعد نسل پرستی اور اسلامو فوبیا میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد تشدد کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں ایک انتہائی دائیں بازو کے ایک گروپ نے جو بیرو کے علاقے میں قدم جما رہا تھا حصہ لیا۔ کری ہاؤس کی کھڑکیوں کو توڑ دیا گیا، ریستوراں کا بائیکاٹ کیا گیا اور ایک مسلمان ٹیک وے مالک کا سڑک پر ان لوگوں نے پیچھا کیا جنہوں نے اس کے سر پر شراب ڈالی تھی۔
ایک مقامی رپورٹر جس نے اس کیس کی کوریج کی تھی اسے متعدد جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد پولیس کے مشورے پر کیمبریا چھوڑنا پڑا تھا۔
انہوں نے پہلی سماعت میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کے ایک الزام کو قبول کیا تھا۔ اس الزام کا تعلق ان کی بہن اور والدہ سے تھا جن سے رابطہ کر کے اس نے انہیں اپنے وکیل کو ہتھوڑا پہنچانے کا کہا تھا۔
استغاثہ کے وکیل جوناتھن سینڈیفورڈ نے کہا کہ ایلینور ولیمز نے ’آن لائن جا کر بے ترتیبی سے ناموں کو تلاش کیا‘ تاکہ وہ انہیں یا تو متاثرین یا سمگلنگ کے مجرم کے طور پر پیش کر سکیں۔
جیوری نے سنا کہ جن لوگوں کے بارے میں اس نے الزامات لگائے ان میں سے کچھ حقیقی تھے جبکہ دیگر بےبنیاد تھے۔
اس نے اپنے آپ کو کچھ پیغامات بھیجے تھے اور دوسرے معاملات میں حقیقی لوگوں کو پیغامات بھیجنے پر مجبور کیا تاکہ وہ دعوی کر سکیں کہ وہ بدسلوکی کرنے والوں کی طرف سے تھے۔
ایلینور نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک سنیپ چیٹ اکاؤنٹ شیگی ووڈ نامی ایک ایشیائی سمگلر کا ہے جو درحقیقت ایسیکس علاقے کے لیام ووڈ نامی ایک سفید فام نوجوان شخص کا تھا۔
شیگی ووڈ ٹیسکو سٹور میں کام کرتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ ایلینور ولیمز پورٹسماؤتھ کی ایک دوست تھیں جو اس سے ملنے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کو پتہ چلا کہ مبینہ بدسلوکی کرنے والے کا ایک اور سنیپ چیٹ اکاؤنٹ اس کی والدہ کے پتے پر بنایا گیا تھا۔
ایلینور ولیمز نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ کاروباری شخصیت محمد رمضان نے اسے 12 سال کی عمر سے پالا تھا۔
جرح کے دوران، محمد رمضان نے وکیل صفائی لوئیس بلیک ویل سے پوچھا: ’کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ نے میری زندگی کو کافی جہنم میں ڈال دیا ہے، یا آپ کے مؤکل نے کیا؟‘
ان پر گرومنگ گینگ کا سرغنہ ہونے کا الزام لگنے کے بعد محمد رمضان کو، جنہیں مو رمی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 500 سے زیادہ جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔
ایلینور نے الزام عائد کیا تھا کہ محمد رمضان نے ایمسٹرڈیم کے کوٹھوں میں ان سے کام کروایا اور اسے وہاں ایک نیلامی میں بیچ دیا۔
تاہم عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت ان کا فون اور بینک کارڈ بیرو بی اینڈ کیو سٹور میں درحقیقت استعمال ہو رہا تھا یعنی وہ ایمسٹرڈیم میں نہیں تھے۔
اس نے دعویٰ کیا کہ اسے بلیک پول کے علاقے میں ایک رات میں متعدد مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوا کہ وہ شاپنگ کر رہی تھی اور رات اپنے ہوٹل کے کمرے میں اکیلی گزار رہی تھی۔
ریپ کے جھوٹا الزام کا سامنا کرنے والے ایک اور شخص جورڈن ٹرینگو نے عدالت کو بتایا کہ ان الزامات نے اس کی زندگی کو ’تباہ برباد‘ کر دیا ہے۔
پریسٹن جج رابرٹ التھم نے سزا کے اعلان کو مارچ تک ملتوی کر دیا ہے۔
چھ مردوں اور چھ خواتین پر مشتمل جیوری نے ایلینور کو متفقہ طور پر مجرم قرار دینے میں صرف ساڑھے تین گھنٹے کا وقت لیا۔
تین سال تک ایک تاریک اور مکمل طور پر فرضی ماضی کا شکار رہنے کے بعد، محمد رمضان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ’میں اب اپنی زندگی میں واپس آ رہا ہوں۔‘
دو سال قبل دسمبر میں ’گرومنگ گینگز‘ کی ایک دہائی کی بحث میں ایک اہم لمحہ آیا جب برطانیہ کے ہوم آفس کی ایک اہم رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس بات کا کوئی قابل اعتبار ثبوت نہیں ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال کے معاملات میں کسی ایک نسلی گروہ کی زیادہ نمائندگی ہے۔
آج کل برطانیہ میں بہت سے لوگوں کے لیے ’گرومنگ گینگ‘ کی اصطلاح فوری طور پر پاکستانی نژاد مسلمان مردوں کو سفید فام لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کا تاثر دیتی ہے، لیکن ہوم آفس کے محققین نے بتایا کہ ’تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گروہ پر مبنی مجرم زیادہ تر سفید فام ہوتے ہیں۔‘