اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت کے جج عباس شاہ نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب پر اداروں کے خلاف اکسانے اور نفرت پھیلانے کے مقدمے میں انہیں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کو اتوار کی شب ایک نجی ٹی وی چینل بول ٹی وی کے ایک پروگرام میں مبینہ اشتعال انگیز بیان پر اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا۔
امجد شعیب کے علاوہ تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر اور پراسیکوٹر عدنان عدالت میں پیش ہوئے۔ استغاثہ کی جانب سے امجد شعیب کے سات روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی۔
تھانہ رمنا میں مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 153 اے اور 505 شامل کی گئی ہیں۔
153 اے نفرت انگیزی پھیلانے کی دفعہ ہے جو کہ ناقابل ضمانت ہے اور اس کی سزا پانچ سال قید و جرمانہ ہے جبکہ دفعہ 505 اداروں کے خلاف اکسانے کی دفعہ ہے، جو ناقابل ضمانت ہے اور اس کی سزا تین سال قید و جرمانہ ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی ایک ٹویٹ میں اس گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔
Condemnable arrest of Lt Gen retd Amjad Shoaib shows democracy & freedom being totally destroyed in Pak to save regime change conspiracy's fascist order of cabal of crooks propped by handlers. It is time for every Pakistani to stand up for Haqeeqi Azadi & save Pak from the abyss.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) February 27, 2023
وکیل استغاثہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اپوزیشن کو حکومت کے خلاف مزید سخت حکمتِ عملی اپنانے کے لیے اکسایا جارہا ہے۔ جنرل امجد شعیب کے بیان سے تین گروہوں کے درمیان نفرت پھیلائی جارہی ہے، ان پر لگی دفعات کے تحت پانچ سال کی سزا ہوسکتی۔'
امجد شعیب کے وکیل مدثر خالد عباسی نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کیس خارج کرنے کی استدعا کی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ ’امجد شعیب نے کوئی جرم کیا بھی ہے یا نہیں، اگر مجسٹریٹ کو لگتا ہے کہ ملزم نے کوئی جرم نہیں کیا تو کیس ڈسچارج کیا جا سکتا ہے۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے پاکستان تحریک انصاف کی ’جیل بھرو‘ تحریک پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جیل بھرو تحریکیں اس طرح کامیاب نہیں ہوتیں۔‘
ایف آئی آر کے مطابق: ’انہوں نے کہا کہ حکومت مخالف جماعت اعلان کرے کہ سرکاری دفاتر میں کوئی نہیں جائے گا اور اگر اس کال پر لوگ دفاتر نہیں جاتے تو یہ ایکشن حکومت کو سوچنے پر مجبور کرے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل مدثر عباسی نے مزید کہا کہ ’امجد شعیب پر مقدمے میں لگائی گئی دفعات بنتی ہی نہیں، انہوں نے ایک مخصوص صورت حال کے حوالے سے صرف مثال دی تھی۔ انہوں نے ایسی بات آج تک نہیں کی جس سے ملک کو کوئی نقصان پہنچے، یہ صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔‘
امجد شعیب کے دوسرے وکیل قیصر امام نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اپنے بیان کا اقرار کر رہےہیں، وہ امجد شعیب ہی تھے جو ٹیلیویژن پر بیٹھے ہوئے تھے، اگر بیان اور اپنی موجودگی کا اقرار کرلیا ہے تو فوٹوگرامیٹک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیوں کروانا ہے؟' اس پر وکیل استغاثہ نے جواب دیا کہ 'ٹرائل کے لیے وائس میچنگ اور فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کا ثبوت ضروی ہوتا ہے۔'
امجد شعیب کے تیسرے وکیل ریاست علی آزاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جنرل امجد شعیب نے 1965 اور 1971 کی جنگ لڑی ہے اور وہ پاکستان کے سب سے محب وطن شہری ہیں، انہوں نے شہریوں کو نہیں کہا کہ وہ سرکاری دفاتر نہ جائیں۔'
مزید لکھا گیا: ’امجد شعیب نے اس بیان اور تجزیے کے ذریعے سرکاری ملازمین کو اپنے قانونی و سرکاری فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے اکسایا ہے۔ ان کا مقصد اپوزیشن و سرکاری ملازمین میں حکومت کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلانا ہے تاکہ اس ملک میں انتشار و بدامنی پھیلے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق: ’یہ بیان سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیا گیا ہے لہذا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب اکثر و بیشتر ٹی وی پروگراموں میں بطور دفاعی تجزیہ کار شریک ہوتے ہیں۔